پاکستان کھپے ہی کھپے

عمران خان نیازی کیا گرفتار ہوئے کہ ملک میں فتنہ بلوہ اٹھ کھڑا ہوا ایسا منظر دیکھ رہا تھا کہ بدیشی جشن فتح میں مفتوح کی بینڈ بجا رہے ہیں، ان کے لئے کوئی ضابطہ اخلاق زندگی وجود ہی نہیں رکھتا، توڑ پھوڑ خوب ہوئی ، ساتھ ہی ساتھ غنیم بھی بغل دبائے رفو چکر ہولئے دنیا کو یہ بارآور کرایا کہ انہوں نے اپنے عظیم صادق رہنماء کی گرفتاری پر احتجا ج کیا ہے کیا ملک میں تباہی پھیلا دینے کو احتجا ج کہا جا سکتا ہے، شاید یہ یوتھیئوں کی لغت میں ہو، پہلی بات تو یہ ہے کہ احتجا ج کس بات کا کہ یوتھیئوں کے لیڈر عمران احمد خان نیازی کو کرپشن کے ایک مقدمے میں گرفتار کرلیا گیا تھا، کیا ان کی گرفتاری خلاف آئینی یا قانونی تھی جس طرح ہر شہری کو یہ بنیادی حق ہے کہ وہ اپنی حق تلفی پر احتجاج کرے بعینہ یہ حق تحریک انصاف کے ہر کا رکن کو حاصل ہے لیکن احتجاج کی آڑ میں کسی کو بھی بلوہ کا حق نہیں ہے اور نہ دیا جا سکتا ہے، بات یہ ہے کہ احتجاج کا حق یا موقع بنتا ہی نہیں تھا، گزشتہ ایک سال سے مشاہدہ میں آرہا ہے کہ مقدما ت کے سلسلے میں جتنی سہولت کاری چئیرمین پی ٹی آئی کے لئے ہو رہی تھی وہ کبھی کسی مظلوم ملزم کو حاصل نہیںرہی، اسلام آباد ہائی کو رٹ کے احاطے سے ان کی گرفتاری فوری طور پر محترم چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے نو ٹس لیا، معتلقہ ارباب حل وعقد کو طلب بھی کیا پھر رات گئے فیصلہ بھی دیا اور عمران خان نیازی کی گرفتاری کو قانونی قرار دیا جس کے بعد کسی احتجاج یا بلوے کی نوبت نہیں تھی، جہاں تک گرفتاری کا تعلق ہے تو یہ اپنی غلطیوں کا خمیازہ ہے، ایک سال سے موصوف کپتان صاحب کو عدالت طلب کرتی رہی وہ آمادہ حاضری ہوئے ہی نہیں، حالاں کہ پی ٹی آئی ک کپتان نے فرمایا تھا کہ غریب کو انصاف میسر نہیں ہوتاچنانچہ پی ٹی آئی کے چبوترے سے بلاتخصیص سب کو انصاف ملے گا، دنیا نے دیکھ لیا جو سہولت کاری پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کو ملتی رہی اس سے عمران خان کا کہا سچ ثابت ہوا کہ یہاں بے وسیلہ کے لئے قانون اور ہے اور وسیلہ دار کے لئے اور ہے، عاشقان کپتان کی مدہوشی کا یہ عالم دیکھنے کو ملا کہ آئی ایس پی آر نے شفاف کہہ دیا کہ دشمن جو پچھتر سال میں نہ کر سکا وہ نو مئی کے روز ان عاشقان بے مہار نے کر دیا، بلوہ اور احتجاج میں فرق یہ ہے کہ احتجاج منظم طور پر اور احتجاج کے لوازمات کا تعین ہوتا ہے کہ اس کا انداز کیا ہو گا اور ساتھ ہی یہ کیفیت یقنی ہوتی ہے کہ احتجاج کے موقع پر کوئی لا قانونیت کا ارتکاب ہوگا لیکن بلوہ اور بغاوت کا رشتہ اٹوٹ ہوتا ہے، عمران نیازی عدالت میں پیش ہونے سے کیوں گریزاں تھے جو نوبت گرفتاری تک پہنچی اگر وہ عدالتوں کا اسی طرح احترام کرتے جس طرح وہ زبانی کلامی کرتے رہے توحالات یہاں تک نہ پہنچ پاتے، پاکستان میں انتقامی سیاست کوئی نئی بات نہیں ہے اس کا راج سابق حکومت میں بھی عروج پرنظر آیا لیکن دیکھنے میں آیا کہ مظلوم کا ایسا وتیر ہ دیکھنے میں نہیں آیا، کیوں کہ پی ٹی آئی سے جب سے تخت اقتدار کھسکا ہے اس کا احتجاجی مقام مخصوص علاقے نظر آئے ہیں، فوجی آمروں کے خلاف بھی احتجاج ہوتے رہے ہیں لیکن کبھی احتجاج کرنے والوں نے مخصوص علاقوں کو نہیں چنا، نہ کبھی ادھر کا رخ کیا، یہ پہلی مرتبہ ہی ہو رہا ہے کہ جب بھی یوتھئے احتجا ج کے لئے نکلتے ہیں تو ان کا رخ ہمیشہ قومی تنصیبات اور حساس علاقوں کی طرف ہوتا ہے، پشاور میں درجنوں مرتبہ مختلف طبقوں کی جانب سے صوبائی اسمبلی کے سامنے احتجاج کیا جاتا رہا ہے، یہاں اجتجاج کرنے والوں کو منتشر کرنے والوں پر جبر بھی ہوا، لاٹھی چارج کے ذریعے ان کی ٹھکائی بھی کی گئی، آنسو گیس کے گولے بھی ان پر چلائے گئے لیکن کبھی مظاہرین نے جوش وجذبہ میں آکر قومی تنصیبات کو نہیںکھدیڑا، پہلے تو یہ وضاحت ہونا چاہئے تھی کہ یوتھیئوں کا احتجا ج کس کے اقدام کے خلاف تھا، گرفتاری نیب نے کی جبکہ مظاہرین نے نعرے بازی انتہائی حساس قومی ادارے کے خلاف کی، پھر حملہ آور قومی اثاثوں پر ہوئے اور انتہائی حساس قومی اثاثوں کو تباہ کیا، جیسا کہ پشاور میں ریڈیو پاکستان کی عمارت کو نذرآتش کیا، دشمن جب بھی حملہ آور ہوتا ہے تو وہ سب سے پہلے حساس تنصیبات کو نشانہ بناتا ہے جس میں ریڈیو اور ٹی وی کے مراکز بھی آتے ہیں، کیا یہ فعل ان کی حب الوطنی قرار پا سکتا ہے، اس کے علاوہ کور کمانڈر کی رہائش گاہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی یہ عجیب احتجاج تھا کہ رہائش گاہ میں توڑ پھوڑ بھی کی اور مال غنیمت کے طور پر وہاں سے قیمتی اشیاء بھی چوری کر کے لے گئے، ایک صاحب نے جو ”مور” بغل میں دبائے ہوئے تھے میڈیا کے نمائندے کے سوال پر جو اب میں کہا کہ وہ اس لئے لے جا رہے ہیں کہ یہ قوم کے پیسوں سے آیا ہے، گویا ان کو بھی الہام ہوتا ہے، ایک خاتون نے بھی قیمتی چیزیں پکڑی ہوئی تھیں، میڈیا کے نمائندے کے سوال پر وہ بولیں کہ احتجاج میں آتے وقت وہ اپنے گھر سے لے کر آئی ہیں، احتجاج کیا ہوتا ہے اور ایک
سیاسی جماعت اور لیڈر شپ کی کیا ذمہ داری ہوتی ہے، فوجی آمر پرویز مشرف بندوق کے زور پر پاکستان پر قابض تھے کہ انہی کے دور میں بے نظیر کے قتل کا سانحہ ہوا، جیالوں میں انتہائی جوش و جذبہ پیدا ہوا انہوں نے شدید ترین احتجا ج کیا سب سے زیادہ ردعمل سندھ میں ہوا ایک ہفتہ تک جذباتی جیالے بے قابو تھے لیکن کوئی جیالہ کسی حساس علاقے یا کسی حساس تنصیب کی طرف نہیں بڑھا اور نہ فوجی علاقوں کا رخ کیا، نہ کورکمانڈر وغیرہ کے گھر کے سامنے احتجاج کیا حالاں کہ اس سانحہ کی ذمہ داری فوجی آمر پر ہی عائد ہوتی تھی، اس موقع پر پی پی کی لیڈر شپ نے سنہری کردار ادا کیا، آصف زرداری نے ”پاکستان کھپے” کانعرہ دیا اور یوں احتجاج کو ٹھنڈا کردیا، احتجاج کے پہلے دن یوتھیئوں نے ریڈیو پاکستان کے احاطے میں چاغی پہاڑ کے ماڈل کو نذر آتش کیا جو پاکستان کی عظمت کی نشانی تھا، لیڈر شپ کی طرف سے کوئی ردعمل نہیں آیا، دوسرے روز ریڈیو پاکستان پشاور کی عمارت کو اجاڑ دینے کے بعد اس کو بھی آگ میں جھونک دیا، کیا یہ عمارت قومی ورثہ کی امین نہیں ہے، اور تو اور لاہور میں ایک انتہائی حساس اور قومی ورثہ کی عمارت جو اب کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ ہے کو بھی نذر آتش کیا گیا، اس کے احاطے میں دو مساجد بھی ہیں ان میں سے ایک قدیم مسجد ہے اس کو بھی نہیں بخشا گیا، ریا ست مدینہ کے داعی سے کیا ایسی تو قع کی جاسکتی ہے، کور کمانڈر لاہور کی یہ رہائش گاہ اس لئے قومی ورثہ ہے کہ یہ بانی پاکستان کی ذاتی ملکیت تھی، جناح ہاؤس کہلاتا تھا، عمو ماً قائداعظم ممدوٹ ہاؤس میں قیام کرتے تھے تاہم ایک عرصہ تک وہ جناح ہاؤس میںلاہور آمد کے موقع پر قیا م پذیر رہے چونکہ جناح کی بیٹی اس کی وارث نہیں بن سکتی تھیں کیوں کہ وہ پاکستان نہیں آئیں، علاوہ ازیں انہوں نے پارسی مذہب اختیار کیا جس کی وجہ سے وہ اس جائیداد کی وارث نہیں بن سکیں، جس کی وجہ سے یہ جائیداد حکومت پاکستان کی ملکیت بن گئی، پہلے اس کاکنٹرول میونسپل کارپوریشن لاہور نے سنبھالا جب لاہور ترقیاتی اتھارٹی کا قیام عمل میں آیا تو یہ ایل ڈی اے کی تحویل میں آگئی پھر2003ء پاکستان آرمی نے ایل ڈی اے کو ادائیگی کر کے خرید لیا جس کے بعد یہ کور کمانڈر ہاؤس قرار پایا تاہم اس کی تاریخی حثیت کو بر قرار رکھا گیا اور اس کا نام جناح ہاؤس رہنے دیا گیا، چنانچہ یہ پاک آرمی کے تصرف میں آ گیا تب بھی یہ پاکستانی قوم کے لئے ایک قیمتی تاریخی ورثہ قرار پاتا ہے جس طرح پشاور میں نشتر آباد کے ایک مکان پر ہنوز تختی لگی ہوئی ہے کہ یہ ” قائد اعظم کی رہائش گاہ رہی ہے” لاہور میںجناح ہاؤس میں ملازمین کی رہائش گاہ کے قریب جو قدیم مسجد ہے اس کو بھی بحال رکھا گیا کیوں کہ وہ بھی بانی پاکستان کے حوالے سے یادگار ہے، نئی مسجد الگ سے بنا دی گئی ہے تاہم دونوں مساجد میں نماز ادا کی جاتی ہے، بلوائیوں نے اس پرانی چھوٹی مسجد پر بھی حملہ کیا اور اس کی کھڑیوں کی توڑ پھوڑ کی، اس فعل کے بارے میں یہ ہی کہا جاسکتا ہے کہ جنہوں نے مقدس ترین مقام مسجد نبوی ۖ کی حرمت کا خیال نہیں رکھا اور اس کی حرمت پامال کی، ان سے اس چھو ٹی مسجد کے احترام کی کیا توقع کی جا سکتی ہے، یہ بھی واضح رہے کہ یہ وہی کور جناح ہاؤس یا کور کمانڈر ہاؤس ہے جس کے بارے میں 1965ء میں بھارتی فوج کے کمانڈر نے فیصلہ کیا تھا کہ لاہور فتح کر کے اس جناح ہاؤس میں جشن منائیں گے اور دعوت تناول کریں گے مگر پاک آرمی نے بھارتی سورماؤں کا یہ خواب چکنا چورکردیا تھا اور یوتھیئوں نے بدھ کے روز یہاں اپنی کامیابی کا جشن منایا، بلوائیوں کے کسی لیڈر کے منہ سے ”پاکستان کھپے” کا نعرہ ابھی تک بلند نہیںہوا۔؟

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار