خدا خیر کرے

حالیہ برسوں میں پاکستان سمیت خطے کے دیگرممالک موسمیاتی تغیرات کے باعث غیر معمولی گرمی ‘ بارشوں اور سیلابوں کا سامنا کر رہے ہیں گزشتہ سال خیبر پختونخوا’ سندھ ‘ بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے اضلاع میں جو تباہی آئی اس سال بھی اسی طرح کے خطرات کا اظہار کیا جارہا ہے محکمہ موسمیات نے اس سال بھی شدید گرمی ‘ بارشوں اور سیلاب کی پیشگوئی کی ہے ۔ موسمی اور قدرتی حالات پر انسان کی گرفت نہیںاچانک جب شدید بارشیں ہوتی ہیں اور سیلاب آتا ہے تو انسان کی بے بسی اور حالات کے رحم و کرم پر ہونا مقدر کا لکھا جان کر قبول کیا جاتا ہے ہمارے ملک میں تو کم از کم ایسا ہی ہے تھوڑی بہت کوششیں ضرور ہوتی ہیں کہ آبادی و املاک کو بچایا جائے مگر تباہ کاریوں سے محفوظ رہنا اپنے بس کی بات نہیں ایک ہمارے ہاں ہی کیا ترقی یافتہ ممالک میں بھی صورتحال سے نمٹنے کے بہتر انتظامات کے باوجود تباہ کاریوں کے اثرات سے مکمل بچنا ممکن نہیں ہوتا قدرت اور فطرت کی بپھرتی اور بگڑتی صورت اپنی جگہ لیکن بطور انسان اس عمل میں ہمارا بھی کافی حد تک عمل دخل رہتا ہے جس سے قطع نظر اسکی بنیادی وجوہات میں درجہ حرارت بڑھانے میں معاون گیسز مثلاً کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین کا بڑے پیمانے پر اخراج اور جنگلات میں نمایاں کمی ہونا ہے بدقسمتی سے پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک کی درجہ بندی میں پانچویں نمبر پر ہے پاکستان کے حوالے سے موسمیاتی تبدیلی کے نمایاں ا ثرات میں انسانی صحت کو خطرات ‘ غذائی اجناس کی پیداوار میں کمی ‘ وبائی امراض کے پھیلائو میں اضافہ خشک سالی گلیشیرز کے پگھلائو اور سطح سمندر میں اضافہ موسموں کے دورانیے میں تغیر اورشدت سیلاب اور گرمی و سردی کی لہروں میں ا ضافہ شامل ہیں۔موسمی تبدیلی جہاں ناپائیدار ترقی اور سماجی تفریق اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم میں اضافہ کا سبب ہو سکتی ہے وہاں اس کی وجہ سے املاک جانوروں اور فصلوں کانقصان ‘بے ہنگم نقل مکانی ‘ بھوک وافلاس اور بے گھر ہونے میں اضافہ بھی دیکھا گیا ہے اس کے علاوہ سیلاب سے زرعی اراضی سے محرومی ‘ مویشیوں کی ہلاکت اور اس سے وابستہ دیگر تباہ کاریاں اور نقصانات ہمارے عام مشاہدے میں شامل ہیں موسمیاتی تبدیلی میں بنیادی کردار بھی ہمارا اپنا ہے موسیماتی تبدیلی آب و ہوا کی تبدیلی کے قدرتی نظام میں بگاڑ کا نام ہے جس کی بڑی وجہ انسانی طور طریقوں ‘ معمولات ‘ استعمالات اور خواہشات میں بگاڑ کا پیدا ہونا ہے جن میں قدرتی وسائل مثلاً پانی ‘ خوراک ‘ لکڑی اور زمین کا بے تحاشا اور بلا ضرورت استعمال ہے اور ان چیزوں و سہولیات کا ضیاع ہے ایک جانب جہاں انسانوں کی جانب سے کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی تو دوسری جانب فطرت اور قدرت کی تباہ کاریاں بھی اپنی جگہ بڑے عوامل بن کر سامنے آتی ہیں ‘ پاکستان ان حالات سے بری طرح متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے ۔ جرمن واچ رپورٹ کے مطابق فلپائن اور ہیٹی کے بعد پاکستان دنیا میں موسمی حالات کی وجہ سے آنے والی قدرتی آفات سے سب سے زیادہ اور مستقل طور پر متاثرملک ہے پاکستان کی جی ڈی پی کے ہر یونٹ پر اعشاریہ 52 فیصد نقصان موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہو رہا ہے اور انیس سالوں میں پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے 173 قدرتی آفات رونما ہوئی ہیں ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے ماہرین پاکستان میں موسمی حالات کے سبب آنے والی قدرتی آفات میں سے سیلاب کو سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں اور حالیہ برسوں کی صورتحال سے اس کی عملی طور پر تصدیق بھی ہوئی ہے ۔موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث مون سون بارشوں میں شدت آتی جارہی ہے اور 2010ء کے بعد تقریباً ہر سال پاکستان کے کسی نہ کسی علاقے میں سیلاب آتا رہا ہے علاوہ ازیں پاکستان کے مختلف حیاتیاتی تنوع والے علاقوں میں تقریباً ہر سال ہی سیلاب آنا معمول بن چکا ہے پاکستان کے نقشے پر درمیان سے ایک لکیر کی صورت میں چلنے والے دریائے سندھ کے دونوں کناروں پرایک سو کلو میٹر کی پٹی میں ملک کے اکثر بڑے شہر زراعت اور صنعتیں قائم ہیں اس مخصوص علاقے میں آنے والے دریائی سیلاب پاکستان کی شہری آبادی ‘ زراعت اور صنعتی بستیوں کے لئے خاص طور پر بڑا خطرہ اور چیلنج ہے پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے اس ایک سو کلو میٹر کے علاقے میں سیلاب سے کھڑی فصلوں کی تباہی کے باعث خوراک کی شدید قلت کا خطرہ دن بدن بڑھ رہا ہے ۔ یو این ڈی پی کی ویب سائٹ کے مطابق شمالی علاقہ جات میں واقع بڑے پہاڑی سلسلوں بشمول ہمالیہ ‘ ہندوکش اور قراقرم کے برف کے پہاڑ تیزی سے پگھلنے سے گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا میں تیس ہزار جھیلیں بن گئی ہیں جن میں سے 33 جھیلوں کو انتہائی خطرناک قرار دیا گیا ہے ۔ ماہرین اس کی یہ وجہ سے بتاتے ہیں کہ یہ جھیلیں کسی بھی وقت پھٹ کر گلوف کا سبب بن سکتی ہیں قارئین اس کو یوں سمجھیں کہ برف کے پہاڑوں کے اندر اور نیچے بڑی بڑی قدرتی جھیلیں موجود ہیں جو قدیم الایام سے ہیں موسمیاتی حدت کے باعث جب برف کے پہاڑ شق ہوتی ہیں تو ان جھیلوں کے پانی کا تیز ریلا برف کے بڑے بڑے ٹکڑوں کے ساتھ اچانک بہنے لگتے ہیں جس کے نتیجے میں زمینی کٹائو کی مٹی بھی شامل ہو کر مزید شدید سیلاب کا باعث بن جاتا ہے۔
پاکستان کے شمالی علاقوں اور چترال میں گرمیوں میں اس طرح کے درجنوں چھوٹے بڑے واقعات رونما ہوئے اور سیلاب آئے یو این ڈی پی کے مطابق گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا میں گلوف کی زد میں آنے والے دو کروڑ نوے لاکھ ا نسانی آبادی رکھنے والے دس اضلاع ہیں یہ ملک کی کل آبادی کا پندرہ فیصد ہے ۔ ستم بالائے ستم یہ کہ جہاں ایک جانب ملک میں شدید بارشوں کے باعث سیلاب کے خطرات میں اضافہ ہوا ہے وہاں ملک کے بعض حصوں میں مسلسل جاری خشک سالی کی وجہ سے قحط سالی دوسرا بڑا خطرہ اور چیلنج ہے ۔ جنوبی پنجاب ‘ سندھ اور بلوچستان میں سالانہ بنیاد پر کم بارشوں کے باعث قحط سالی تواتر سے ریکارڈ کی جارہی ہے ۔ ایک جانب جہاں سیلاب سے فصلیں تباہ ہوتی ہیں تو دوسری جانب مسلسل خشک سالی کی وجہ سے انسانوں اور مویشیوں کو خوراک کی قلت ہو رہی ہے جس کی وجہ سے ان علاقوں سے لوگ بڑے پیمانے پر نقل مکانی پر مجبور ہیں جس سے پاکستان میں موسمیاتی مہاجرین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے مستزاد ٹڈی دل کی صورت میں ایک نیا عذاب بھی سنگین مسئلہ بنتا جارہا ہے موسمی شدت اور گرمی میں اضافہ کے باعث بجلی کی طلب میں نمایاں ا ضافہ بجلی کے نظام پر مزید دبائو کا باعث بن رہا ہے ایک جانب یہ قدرتی حالات اور دوسری جانب معاشی بدحالی اوپر سے سیاستدانوں کی آپس کی ضد اور انا کی آسمان کو چھوتی ہوئی مخالفانہ جنگ مہنگائی کا طوفان ساری مشکلات ملک پاکستان اور اہل وطن کی طرف متوجہ ہیں خدا خیرکرے۔

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''