مگر اس دودھ میں پانی بہت ہے

کبھی کبھی کسی منفی صورتحال کے اندر سے بھی مثبت نتائج سامنے آجاتے ہیں یعنی اس مصرعہ کے بالکل الٹ کہ مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی، خبر یہ ہے کہ یونیورسٹی ٹائون کے علاقے میں دودھ میں پانی ملانے پر 7 شیر فروشوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے، آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس منفی صورتحال کے اندر سے مثبت نتائج کونسے برآمد ہوئے ہیں یعنی ملاوٹ کرنے والوں کے خلاف اقدام کیا گیا اور بدعنوان افراد پکڑے گئے اب شیر فروش بقول شاعر کچھ بھی کہیں جرم تو ان سے سرزد ہوہی گیا ہے یعنی
گوالا کھائے جائے قسمیں
مگر اس دودھ میں پانی بہت ہے
اس کے باوجود ہم تو یہی گزراش کریں گے کہ ان شیر فروشوں کو پھولوں کے ہار پہنا کر شہر بھر میں گھمایا جائے کیونکہ چند برس سے اس دودھ اور پانی کے فلسفے سے تائب ہوکر یار لوگوں نے کیمیکلز سے بنے ہوئے دودھ کے ذریعے ”موت” بانٹنا شروع کر رکھی ہے کیونکہ اب اس حوالے سے عوام اچھی
طرح جان چکے ہیں کہ پوسٹ مارٹم کے دوران مردوں کے جسم پر جو کیمیکل لگایا جاتا ہے اس کو زندہ انسان استعمال کرے تو اسے کینسر ہو جاتا ہے یعنی فوری موت نہیں تو آہستہ آہستہ جسم میں سرایت کرنے والی موت ایسی صورت میں اگر کچھ شیر فروش ”اللہ کے خوف سے” کیمیکلز سے بنے ہوئے دودھ کی بجائے خالص دودھ میں ذرا سا پانی ملاکر بیچ رہے ہیں تو ان سے دودھ خریدنے والوں کو ان کا شکر گزار ہونا چاہئے، باقی کے شیر فروشوں کو ان کی ”ایمانداری” کی تقلید کرنے پر آمادہ کریں تاکہ وہ بھی لوگوں میں ”موت” بانٹنے سے توبہ کرتے ہوئے ”خالص دودھ” فروش کریں ہاں البتہ اگراس میں عادت سے مجبور ہوکر تھوڑا سا پانی ڈال دیں تو کوئی مضائقہ نہیں اس سے کم از کم عوام مستقل کے مریضان کینسر کے منصب پر فائز ہونے سے محفوظ رہیں گے۔ ہاں شیر فروش اتنا التزام ضرور رکھیں یعنی پانی ملاتے ہوئے ہاتھ ذرا ہولا رکھیں تاکہ مرزا محمود سرحدی مرحوم کی طرح یہ نہ کہنا پڑے کہ
محتسب سے کہوں تو کیا جاکر
میری مانند وہ بھی روتا ہے
پہلے ہوتا تھا دودھ میں پانی
آج پانی میں دودھ ہوتا ہے
اب وہ زمانہ بھی تو نہیں ہے جب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی والا محاورہ ایجاد ہوا تھا اور جس کے پیچھے کہانی بڑی دلچسپ ہے کہ گائوں سے ایک دودھ فروش شہر میں دودھ فروخت کرنے آتا تھا اس کا دو گاگر دودھ خالص ہونے کی وجہ سے ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوجاتا تھا ایک روز اس کی نیت میں فتور آیا تو آتے ہوئے اس نے راستے میں پڑنے والی نہر سے دودھ میں پانی ملادیا، واپسی پر وہ اس نہر کے کنارے اپنے تھیلے میں پڑے ہوئے نقد روپے (تب نوٹ نام کی کرنسی نہیں ہوا کرتی تھی) گننے کیلئے بیٹھ گیا ابھی اس نے تھیلہ نکالا ہی تا کہ درخت پر بیٹھے ہوئے ایک بندر نے چھلانگ لگاکر وہ تھیلا چھین لیا اور درخت پر چڑھ گیا دودھ فروش بہت رویا چلایا مگر بندر دانت نکال کر کھی کھی کرتا رہا، بے چارہ چپ ہوکر غمزدہ حالت میں بیٹھ گیا اتنے میں بندر نے ایک سکہ اس کی طرف پھینکا تو اس کی امید بندھی کہ باقی کے سکے بھی وہ اس کی طرف پھینک دے گا مگر دوسرا سکہ بندر نے نہر میں پھینک دیا یوں وہ ایک سکہ دودھ فروش اور دوسرا نہر میں پھینکتا چلا گیا اور جب تھیلا خالی ہوا تو وہ بھی دودھ فروش کی جانب پھینک دیا اس کے بعد ہی یہ محاورہ ایجاد ہوا کہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی۔
بات صرف دودھ میں پانی کی ملاوٹ تک رہتی تو صبر کرلیتے مگر اب تو مرغیوں کی ہڈیوں سے بنے ہوئے قیمے تک معاملہ جا پہنچا ہے سوچنا تو پڑے گا کہ اب بدعنوانی کے ڈانڈے کن سرحدات تک پھیل گئے ہیں، محکمہ خوراک والوں نے اب تک صرف دو
ایسے افراد کو دھرلیا ہے، جناح پارک کے سامنے برائلر مرغی کا گوشت عام دکانوں میں دیگر ذبیحہ جانوروں کے گوشت کی طرح بکتا ہے جہاں سے لوگ اپنی ضرورت کے مطابق مرغیوں کا گوشت تلوا کر لے جاتے ہیں تاہم یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب ان دکانوں پر پارٹس کی صورت میں یا پھر کاٹ کر چھوٹے ٹکڑوں کی صورت میں مرغی کا گوشت بکتا ہے تو ان کی ہڈیاں کہاں بچتی ہیں یہ کوئی گائے، بھینس یا بچھڑے کا گوشت تو نہیں جس میں سے قصاب فالتو ہڈیاں نکال کر ایک طرف ڈالتا رہتا ہے، ہاں اگر مرغیوں کی ٹانگوں کی بات کی جائے تو پھر بھی بات بن سکتی ہے مگر وہاں بھی معاملہ دوسرا ہے اور وہ یہ کہ افغانیوں نے مرغیوں کی ٹانگوں سمیت دیگر حصوں سے استفادہ کرنے کی راہ ہمارے لوگوں کو بھی بتائی کہتے ہیں کہ جس طرح بڑے جانوروں کے سری پائے پکائے جاتے ہیں اسی طرح مرغیوں کی ٹانگوں کو بھی پہلے آگ پر تھوڑی دیر رکھ دیا جاتا ہے اور پھر ان کو چھری سے صاف کرکے ”مرغی کے پائے” کی صورت پکایا جاتا ہے بلکہ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان پایوں کو چکن سوپ میں بھی استعمال کیا جاتا ہے جس سے مبینہ طور پر سوپ کا ذائقہ بھی بہترین ہوجاتا ہے اور چکن سوپ گاڑھا بھی ہوجاتا ہے اس لئے تو یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ مرغی کی ہڈیوں سے قیمہ کیسے نکالا جاتا ہے؟ اوپر سے خبر کو ”تڑکا” لگانے کیلئے اس میں یہ بیانیہ شامل کیا گیا ہے کہ یہ ”قیمہ” شادی ہالوں، شامی کباب، سموسہ رول، چپلی کباب اور سیخ کباب فروشوں کو سپلائی کیا جاتا ہے اس حوالے سے ہمیں مرحوم مختار علی نیئر کے مشہور زمانہ ٹی وی پروگرام ”دیکھدا جاندارہ” جیڑا نہ منے تے مولا انوں تختہ کرے” کے الفاظ پر لاکر توڑ دیتے تھے اس لئے اب ہم بھی یہی سوچ رہے ہیں کہ مرغیوں کی ہڈیوں سے قیمہ بنانے کی خبر سچ ہے اور جو نہ مانے اللہ اس کو سمجھے اور اگر یہ سچ ہے تو رئیس امروہوی سے رجوع کرلیتے ہیں کہ
کہنے لگے کہ ہم کو تباہی کا غم نہیں
میں نے کہا کہ وجہ تباہی یہی تو ہے
ہم لوگ ہیں عذاب الٰہی سے بے خبر
اے بے خبر عذاب الٰہی یہی تو ہے

مزید پڑھیں:  موروثی سیاست ۔ اس حمام میں سب ننگے