مشرقیات

ہم میں سے ہر ایک انسان کامیابی کے پیچھے دوڑ رہا ہے، یہ کامیابی ایسی پرفریب ہے جو ہمیں تو کبھی کبھار اپنے ماحول تک سے بیگانہ کردیتی ہے۔ اس کامیابی کے راستے میں ہر آنے والی رکاوٹ کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ہماری نظر میں جو کامیابی ہوتی ہے اس کامیابی کے لیے ہم خود کو کسی قسم کے طریقہ اور اصول کے پابند نہیں مانتے۔ اس انسانی زندگی میں آپۖ کی اتباع بہت آسان ہے لیکن ہم نے اسے مشکل اور ناممکن مان لیا ہے۔ پھر جب انسان اپنی خواہشات کی اتباع میں مکمل اندھا ہوجاتا ہے تو نبی کریمۖ کے صریح اور واضح قول و عمل کے مقابلے میں اپنی خواہشات کو عزیز رکھتا ہے۔ پھر کہا جاتا ہے کہ نبی کریمۖ کی اتباع بہت مشکل اور ناممکن ہے کیونکہ اتباع محض زبانی اقرار کا نام نہیں بلکہ یہ قدم قدم پر سیرت طیبہ سے رہنمائی لینے کا نام ہے۔
آپۖ کو اللہ تعالی نے ایک مشن دیا تھا، آپۖ کو وہ مشن سب سے زیادہ عزیز تھا اس مقصد حیات کے مقابلے میں گھر بار، خاندان، قبیلہ اور یہاں تک کہ اپنا وطن چھوڑنا آسان لگا اور کسی قدم اپنے مقصد حیات سے پیچھے نہ ہٹے۔ اپنے کاز کے ساتھ اس قدر خلوص تاریخ انسانی میں کہیں نہیں ملتی۔
آپۖ کی زندگی پر عمومی نظر ڈالی جائے تو ہماری آنکھیں کھلی رہ جائیں کہ کس قسم کی مشکلات تھیں مگر پھر بھی نہایت کامیابی سے ان مشکلات سے گزر گئے۔ جو مشن آپ کو دیا گیا تھا اس سے پہلے سارے لوگ قدردان تھے بلکہ سب کے سب آپ کی سچائی اور امانت داری کے معترف تھے لیکن جونہی اس مشن کی دعوت و تبلیغ شروع کردیں تو اپنے پرائے سب دشمن بن گئے۔ (بخاری)
پھر اسی دوران میں محبوب ترین بیوی کا سانحہ ارتحال پیش آیا، دشمنوں کے مقابلے میں جو آخری امید تھی چچا ابو طالب وہ بھی اسی سال گزر گئے، بیٹیوں کے رشتے ٹوٹ گئے، اپنے ہی چچا ابولہب بازاروں میں کہتے پھرتے تھے کہ لوگو! یہ میرا بھتیجا ہے، یہ پاگل ہوگیا ہے لہذا ان کی باتوں پر دہیان نہ دو۔
کعبة اللہ کے سائے میں نماز پڑھنے لگے تو کافر مذاق اڑائے اور تعفن زدہ اجھڑی آپۖ پر پھینکے کی جسارت کریں۔ تھوڑے عرصے بعد اس شہر کو چھوڑنا پڑے جہاں پیدائش ہوئی اور بچپن گزرا ہو، پھر ایک اجنبی شہر جاکر سکونت پذیر ہوئے۔
الغرض یہ ساری وہ مشکلات ہیں جو کسی بھی انسان کی زندگی میں آسکتے ہیں۔ تو ان مشکلات کا مقابلہ سیرت طیبہ کی روشنی میں کرنے کی ضرورت ہے۔
مزید یہ کہ آپۖ ایک شفیق باپ اور اپنی ازواج مطہرات کے لیے پیار کرنے والے شوہر تھے، محبتیں بانٹنے والے استاد تھے۔ معاملہ فہمی میں آپۖ کی نظیر نہیں ملتی۔
ان ساری معاشرتی نسبتوں کو سیرت طیبہ کی روشنی میں دیکھنے کی بڑی ضرورت ہے تاکہ ہماری زندگیاں بھی سنور جائیں۔

مزید پڑھیں:  حکومت کیلئے کام مت دیکھیں