رجب طیب اردوان کی تیسری مرتبہ کامیابی

صدر رجب طیب اردوان صدارتی انتخابات میں54.47فیصد ووٹ حاصل کرکے ترکیہ کے تیسری بار صدر منتخب ہوگئے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے رجب اردوان کو دوبارہ صدر منتخب ہونے پر مبارکباد دی ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر شہباز شریف نے کہا کہ میرے پیارے بھائی اردوان کو انتخابات میں کامیابی پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد۔وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ صدراردوان ان چند عالمی رہنمائوں میں سے ایک ہیں جن کی سیاست عوامی خدمت میں گزر رہی ہے۔ وہ مظلوم مسلمانوں کے لیے طاقت کا ستون اور ان کے حقوق کے لیے ایک پرجوش آواز رہے ہیں۔ ان کی صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں کامیابی اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ ان کی قیادت پر ترک عوام کو اعتماد ہے۔سیکولر حزب اختلاف کو شکست دے کر مسلسل تیسری بار منتخب ہونے والے رجب طیب اردوان کی جماعت اب گذشتہ لگ بھگ21 سال سے اقتدار میں ہے، وہ2003میں ترکی کے وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے جبکہ2014میں ملک کے صدر بنے تھے۔ یوں اب ان کا دورِ اقتدار تیسری دہائی میں داخل ہو گیا ہے۔اس سال ترکی جدید جمہوریہ ترکی کے100سالہ سالگرہ منا رہا ہے۔ اردوغان نے صدارتی محل سے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ یہ وقت متحد اور اکٹھے ہونے کا ہے۔ اب یہ کام کرنے کا وقت ہے۔ترک صدر اپنے ملک میں تو ایک طاقتور رہنما ہیں ہی لیکن وہ بین الاقوامی سطح پر بھی ایک اہم رہنما کے طور پر جانے جاتے ہیں جو ویسے تو مغرب کے نیٹو اتحاد کا حصہ ہیں لیکن ان کی نظریں وقت کے ساتھ مشرق کی طرف ہیں۔روس اور یوکرین دونوں کے رہنمائوں نے انھیں فتح پر فوری طور پر مبارکباد پیش کی ہے کیونکہ اردوغان نے اس جنگ میں ثالث کا کردار ادا کیا ہے اور وہ گذشتہ برس بحیرہ اسود سے گندم کی تجارت برقرار رکھنے کے حوالے سے مذاکرات میں کلیدی کردار ادا کر چکے ہیں۔وہ اکثر ایک مشکل نیٹو اتحادی کے طور پر جانے جاتے ہیں کیونکہ وہ سویڈن کے اتحاد کا حصہ بننے کے خلاف ایک رکاوٹ بنے رہے کیونکہ ان کا دعوی تھا کہ سویڈن کرد عسکریت پسندوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔صدراردغان نے استبول کے میئر (1994-98)سے موجودہ منصب صدارت تک طویل سیاسی سفرطے کیا ہے۔ ترکی کو جو یوروپ کا بیمارکہلاتا تھا، انہوں نے جدوجہد کرکے اقتصادی اعتبارسے مضبوط کیا۔ان کے دور میں ترکی نے تعمیراتی میدان میں کمال کی ترقی کی اور دنیا کی سب سے بڑی تعمیراتی انڈسٹری کھڑی کرلی۔ زراعت اور باغبانی سے پیداواراوربرآمدات میں ایک دہائی میں تین گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ۔ عوام کی بنیادی ضرورتوں جیسے صحت خدمات، پانی کی دستیابی، سڑک، مواصلات وغیرہ کو وسعت حاصل ہوئی۔ تعلیم کے شعبہ میں بڑاکام ہوا۔اعلی تعلیم کے لئے بڑی تعداد میں بیرونی طلبہ ترکی کا رخ کرنے لگے ہیں۔ یہ سارے ترقیاتی کام صدر اردغان کی مقبولیت کی بنیاد بنے۔جس کا اندازہ 2016 میں فوجی بغاوت کے وقت ہوگیا تھا جب عوام جدید اسلحہ سے لیس فوجیوں اوران کے ٹنکوں کے سامنے سینہ سپرہوگئے تھے اور جان پر کھیل کر ان کو آگے نہیں بڑھنے دیا اوردنیا کی آنکھیںکھلی کی کھلی رہ گئیں۔ اس مقبولیت کی باوجود اس چناو پر دنیا کی نظریں گڑی تھیں۔سب سے بڑی وجہ یہ کہ اردغان کی شناخت ایک اسلام پسند لیڈر کی ہے ۔ابتدائی دورمیں وہ ترکی کے قدآور اسلامی نظریاتی وسیاسی رہنما نجم الدین اربکان کی رفاہ اسلامی پارٹی سے وابستہ رہے۔ان کی کامیابی اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ ترکی میں کمال اتاترک کی لادینی وراثت کا سمٹ جانا اوریوروپ کے ہی ایک ملک میں پھر سے اسلام کا رنگ ابھر آنا بہت سے ذہنوں میں خارکی طرح چبھتا ہے۔اسی کی بدولت 2016 میں جمہوری حکومت کا تختہ پلٹنے اور اردغان کوقتل کردینے کی مسلح کوشش ہوئی۔جسے عوام نے سڑکوں پر نکل کر ناکام بنایا جو انکی مقبولیت اور ترک عوام کی موقع شناسی کا ثبوت ہے بہرحال تمام تر چینلجوں اور اہم عالمی ممالک کی مخالفت اور ناپسندیدگی کے باوجود ترکی کے نئے صدرکا تیسری مرتبہ انتخاب کے پس پردہ کوئی پوشیدہ امر نہیں بلکہ اپنے عوام اپنے ملک اور سب سے بڑھ کر اپنے دین سے محبت ہے یہی وجہ ہے کہ سخت اور مشکل حالات میں بھی نہ انہوں نے خود کبھی پسپائی اختیار کی اور نہ اپنے نظریات ‘ اصولوں اور ترکیہ کے عوام کے مفادات کا سمجھوتہ کیا۔ان کی کامیابی میں یہی سبق پوشیدہ ہے کہ عوام باشعور ہوں قیادت مخلص ہو اور عوام پوری قوت کے ساتھ اپنے لیڈر کے ساتھ کھڑے رہیں تو نہ صرف ملک و قوم بلکہ اپنے دین اور نظریات پر بھی کارفرما رہ کر کامیابی ممکن ہوتی ہے اور یہی ترکیہ میں بھی ہوا ۔

مزید پڑھیں:  پلاسٹک بیگزکامسئلہ