پختون کون ہیں ؟

آج کل ذہن و قلب میں پختون قوم، اس سے جڑی صفات اور میڈیا پر دکھائے جانے والے اس قوم کے مختلف پہلووں کولے کر ان گنت سوالات تخیلاتی اور فکری زاویوں کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر استفسار کر رہے ہیں کہ پختون کون ہیں؟ نصاب نے تو یہی بتایا ہے کہ پختون ایک غیرت مند، بہادر اور جنگجو قوم ہے. لیکن ان اوصاف کی تشریح ہمارے تفریحی پروگراموں میں اسطرح کی گئی ہے کہ پختون بات کرنے کی بجائے گولی چلانے کو ترجیح دیتا ہے. دلیل کی بجائے انتہا پسند ی اپناتا ہے. اور غیرت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ بات بات پر لڑنے مرنے پر تل جاتا ہے. یا پھر ڈراموں میں دکھایا جاتا ہے کہ پختون چوکیدار، ڈرائیور، خانساماں یا زیادہ سے زیادہ کسی سرکاری دفتر میں بابو ہو سکتا ہے. ڈراموں میں دکھایا جانے والا پختون قومی زبان اردو ٹھیک سے نہیں بول سکتا اور یہ پختون ایک ظالم، جابر، غصہ ناک، عورتوں کی تعلیم کا دشمن، بیٹی کو جائیداد میں حصہ نہ دینے والا ایک ایسا شخص ہے جس کی ہر بات آخری بات ہوتی ہے اور گھر یا خاندان کے کسی شخص کو اس کے سامنے بات کرنے کی اجازت نہیں ہوتی ہر بچے کیلئے اس کے والدین آئیڈیل ہوتے ہیں ڈراموں اور نصابی کتابوں سے پختون کے بارے میں لینے والے تاثر کو لے کر جب میں نے اپنے والد محترم کی ذات اور شخصیت پر نظر ڈالی تو میری سوچ ساکت ہوگئی، ذہن ما ووف ہوگیا اور فکری دریچے منتشر ہو گئے. ہر باپ کی طرح میرے ابو بھی ایک محبت کرنے والے، شفیق، حوصلہ دینے والے، اعتبار کرنے والے اور ہم بہن بھائیوں کو ہر سہولت دینے کیلئے ہر قسم کی قربانی دینے والے نظر آئے. ان کی عادتیں اور خصلتیں محبت، شفقت اور خلوص کا پیکر ہیں. بیٹوں کی طرح بیٹیوں کی تعلیم کے حق میں ہیں، میری امی کو گھر کی سربراہ اور تمام معاملات میں ان کی رائے کو مقدم سمجھتے ہیں. بچوں کو زندگی کے رموز و اوقات اور مدوجزر سمجھانے کے ساتھ ساتھ ان کو عصری آزمائشوں کے بارے میں بھی آگاہ رکھتے ہیں کہ وہ اپنے پائوں پر کھڑے ہو کر معاشرے کے مفید شہری بن سکیں . بدقسمتی یہ ہے کہ یہ تاثر نہ مجھے کتابوں میں ملا اور نہ ہی ڈراموں میں، حتی کہ شاعری میں بھی بہت بار ہمارے قوم کے ساتھ ایسے واقعات اور وصف نتھی کئے گئے جس سے ہمارا تشخص برباد ہوااس کے بعد موکولیکہ بینر جی کی "دی پٹھان ان آرمڈ”سراولف کیروکی”دی پٹھانز”اور خان عبد الغنی خان کی”پٹھان” پڑھی تو ذہن کے بند دروازے وا ہوگئے پختون ایک نرم خو، محبت کرنے والا امن پسند، بیٹی، بیوی، بہن حتی کہ کسی بھی خاتون کی عزت کی خاطر جان دینے والا با حیا اور معتبر شخص بن کر میرے سامنے کھڑا تھا. اگر باپ ہے تو اولاد کی خاطر زندگی کا ہر دکھ جھیل کر انہیں سکھ دینے والا شخص ہے. خاوند کے طور پر اپنی شریک حیات کے سر کا تاج ہے. بھائی کے طور پر بہن کے ارمانوں کا محافظ ہے. بھائی، دوست، استاد، ڈاکٹر، صحافی حتی کہ کسی بھی پیشے سے وابستہ رہ کر اس سے محنت کش، فرض شناس اور درد دل رکھنے والا کوئی نہیں. تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈراموں میں اس کا یہ کردار سامنے کیوں نہیں لایا گیا. اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہوئے مجھے اپنے نام نہاد دانشوروں، شعرا، ادیبوں اور ڈرامہ نگاروں کے کردار و افکار پر معترض ہونا پڑا. اس کی وجہ یہ ہے کہ جب برسہا برس سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے تو ہمارے یہ دانشور کہاں تھے؟ اور اس سے بھی زیادہ بدقسمتی اور دکھ کی بات یہ ہے کہ پختون کا یہ تشخص سب سے پہلے پشتو ڈراموں میں سامنے آیا اور اس کے لکھاری ہماری وہ ادبی شخصیات ہیں جو زبان و قوم کے خدمت کے دعوے کرتے کرتے صدارتی اعزازات تک لے اڑے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی. انہی لوگوں کے قلم سے یہ ڈرامے تحریر ہوئے جن میں پختون ایک ظالم، قدامت پسند، عورتوں کی آزادی کا دشمن، حقوق نسواں کا منکر، تعلیم نسواں سے انکاری شخص دکھا کر اس غلط نصاب کو درست ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ پختون ایک جنگجو قوم ہے. جو ہمیشہ معاشرے کے اچھے پہلووں کے خلاف جنگ لڑتے ہیں ، لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے اس صورتحال میں تصویر کا دوسرا رخ پیش کرنے کے لئے منظم مساعی کی ضرورت ہے اس لئے پختون دانشوروں کو مزید کسی تاخیر کے بغیر آگے آکر آواز اور قلم اٹھانی ہوگی اپنی مسخ شدہ تصویر میں خوبصورت رنگ بھرنے ہوں گے ، مثبت پہلو اجاگر کرنے ہوں گے. اپنے مشاہیر کی خدمات اور دلیرانہ کردار کو معاشرے کے سامنے لانا ہوگا. اردو ڈراموں میں پیش کی جانے والی اپنی مسخ تصویر کو صاف کرنے کیلئے بات کرنی ہو گی ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔
اس بات سے انکار کے لئے بھی حوصلہ چاہئیے کہ پختون قوم کی شناخت، تشخص اور ساکھ کو نقصان پہنچانے کے ذمے دار پختون (نام نہاد) دانشور ہیں ۔ انہوں نے اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشوں یا ضرورتوں کے لئے بڑی بڑی مصلحتوں سے کام لیا اور سمجھوتہ کیا ۔ اب تو حال یہ ہے کہ پشتو زبان و قوم کی خدمت کے بدلے اعزازات و مراعات سمیٹنے والوں کو جب کسی ادبی محفل میں اظہار خیال کے لئے مدعو کیا جاتا ہے تو وہ پیسوں کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا زبان ماں نہیں ہوتی؟ کیا ماں کی خدمت کی بھی اجرت لی جاتی ہے؟ پختون قوم پرست جماعتوں، دانشوروں اور صحافیوں کو اس بارے اپنا کردار ادا کرنے کے لئے اس وقت تک متحرک ہو جانا چاہئے جب تک اس منفی تاثر کی بجائے حقیقی تاثرات قائم نہیں ہوتے اداکیا۔اس بات سے انکار کے لئے بھی حوصلہ چاہئیے کہ پختون قوم کی شناخت، تشخص اور ساکھ کو نقصان پہنچانے کے ذمے دار پختون(نام نہاد)دانشورہی ہیں ۔ انہوں نے اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشوں یا ضرورتوں کے لئے بڑی بڑی مصلحتوں سے کام لیا اور سمجھوتہ کیا ۔ اب تو حال یہ ہے کہ پشتو زبان و قوم کی خدمت کے بدلے اعزازات و مراعات سمیٹنے والوں کو جب کسی ادبی محفل میں اظہار خیال کے لئے مدعو کیا جاتا ہے تو وہ اسے بھی رقم میں تولنے سے دریغ نہیں کرتے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا زبان ماں نہیں ہوتی؟ کیا ماں کی خدمت کی بھی اجرت لی جاتی ہے؟ پختون قوم پرست جماعتوں، دانشوروں اور صحافیوں کو اس بارے اپنا کردار ادا کرنے کے لئے آگے آنا ہوگا۔ ڈراموں اور شاعری کو نئے زاویوں سے لکھنا ہوگا اور اس کے لئے نوجوان اور باصلاحیت لکھاریوں کی حوصلہ افزاء کرنی ہوگی کیونکہ پرانے رائٹرز کے پاس موجودہ نسل کو دینے کے لئے کچھ نہیں اور خیالات میں جدت لانے کو وہ اپنی توہین سمجھتے ہیں ۔ ہمیں اپنا تشخص اور وقار برقرار رکھنے کے لئے خود ہی کچھ کرنا ہوگا، دوسری صورت میں پختون پروفائلنگ اور سٹیریو ٹائپنگ ہی ہمارا مقدر ہوگی۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا