مشرقیات

قرآن مجید بنیادی طور پر دعوت کی ایک کتاب ہے ۔ اس لیے یہی اس کا پہلا اور بنیاد ی موضوع بھی ہے ۔میں اس موضوع یا دعوت کو ذات، صفات اور ملاقات کے عنوان سے بیان کرتا ہوں ۔ ذات سے مراد ذات باری تعالی کا درست تصور ، اس کی بندگی کی دعوت اس کی وحدانیت پر ایمان ہے ۔ دوسری چیز اس کی وہ صفات و سنن ہیں جن کے ذریعے سے وہ مخلوق سے متعلق ہوتا ہے ۔ یہ صفات خدا کے جمال، جلال اور کمال کی زندہ تصویریں ہیں اوراس کی رحمت، قدرت اور وحدانیت کا جامع تعارف کراتی ہیں ۔جبکہ سنن یہ بتاتی ہیں کہ وہ افراد و ملل کے ساتھ کن اصولوں پر معاملہ کرتا ہے ۔
تیسری چیز اس کی ملاقات ہے ۔ ملاقات کے دو پہلو ہیں ۔ ایک وہ جس میں پروردگار عالم کی ذاتِ قدیم ، فانی بندوں کی طرف توجہ فرماتی ہے ۔ اس وقت اس کا تکوینی نظام حرکت میں آتا ہے اور اس کے فرشتے اس کا پیغام لے کر کچھ خاص بندوں پر اترتے ہیں ۔یہ بندے جنھیں نبی یا رسول کہا جاتا ہے اس پیغام کو کتاب الہی کی شکل میں اس کے باقی بندوں تک پہنچاتے ہیں ۔ آخری دفعہ انسانیت سے آسمان کا یہ رابطہ پیغمبر عربی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے عرب کے ریگزار میں ہواجب قرآن کریم کی شکل میں رب نے بندوں سے خطاب فرمایا۔
یہ خطاب گویا مجازی معنوں میں بندوں کی رب سے ملاقات ہے ۔ملاقات کا دوسرا پہلو وہ ہے جس میں درحقیقت بندے اپنے رب سے ملاقات کریں گے ۔یہ ایک نئی دنیا میں ہو گا جو روز قیامت کے بعد قائم ہو گی۔اس دنیا میں دعوت حق کو قبول کرنے والوں کو ہمیشہ کے لیے جنت کی ابدی بادشاہی میں بسادیا جائے گا۔ جبکہ اس کا رد کرنے والے جہنم کی سزا بھگتیں گے ۔اس نئی دنیا کے احوال و مقامات کی تفصیل، اس کی نعمت و انعام کی خوشخبری اور اس کے عذابوں کی تنبیہ قرآن کریم کی دعوت کا اہم ترین موضوع ہے ۔ اسی میں قرآن مزید وضاحت یہ کرتا ہے کہ جس قوم میں کسی رسول کی بعثت ہوجاتی ہے وہاں سزاجزا کا یہ سلسلہ دنیا ہی میں شروع ہوجاتا ہے ۔ یہ ماضی میں بھی متعدد اقوام کے ساتھ ہوا اور آخری رسول یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قوم کے ساتھ بھی یہی معاملہ کیا گیا۔
یہ گویا قرآن مجید کا پہلا موضوع ہے جو بڑ ی تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے ۔ ایمانیات کے حوالے سے قرآن مجید میں جو کچھ بیان ہوا ہے وہ اس دائرے کے اندر ہی بیان ہوا ہے ۔اور جیسا کہ عرض کیا یہ دائرہ اللہ تعالی کی شخصیت کے اردگرد ہی گھومتا ہے ۔ وہی دعوت کا اصل مرکز اور وہی بنیادی خیال ہے ۔ باقی جو ہے اسی بنیادی خیال کی توسیع ہے ۔

مزید پڑھیں:  عدلیہ پردبائو؟