دہشتگردی میں اضافہ

ہمارے رپورٹر کے مطابق پشاور سمیت صوبے بھرمیں ساڑھے 5ماہ کے دوران 100کے قریب پولیس اہلکاروں وافسران کو شہید کیا گیا ہے جس میں افسران بھی شامل ہیں۔ 1جنوری سے 8جون تک پشاور سمیت صوبے بھر باالخصوص جنوبی اضلاع میں پولیس افسران اوراہلکاروںکو ٹارگٹ کیا گیا ۔ پشاور پولیس لائنز دھماکہ خیبرپختونخوا پولیس کی تاریخ میں سب سے بڑاسانحہ تھا ،بنوں سی ٹی ڈی تھانہ پر حملہ اور سوات کبل میں سی ٹی ڈی پولیس تھانہ میں پراسرار دھماکے میں بھی پولیس اہلکار شہید اور زخمی ہوگئے تھے۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز بھی سوات مینگورہ میں2اہلکاروں کو شہید کردیا گیا تھاجبکہ دوروز قبل پشاور تھانہ سربند کی چوکی اچینی پر نامعلوم افراد نے حملہ کردیا تھا تاہم خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔دیکھا جائے تو افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد بھی متوقع طور پر پاکستان میں حالات بہتر نہیں ہوئے اور یہ پیشنگوئیاں کہ کابل میں افغان طالبان کی اقتدار میں واپسی سے پاکستان میں دہشت گردی میں کمی آئے گی حالات کے تناظر میں غلط ثابت ہوئیںکیونکہ اگست 2021ء کے بعد سے حملوں میں کافی سے زیادہ اضافہ ہوا ہے اور یہ حملے مزید مہلک بھی ہوگئے ہیں ۔پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کی رپورٹ جس کا عنوان ”پاکستان کا افغان تناظر اور پالیسی کے اختیارات” ہے میں باقاعدہ طور پر اس امر کی نشاندہی کی گئی ہے کہ کہ افغانستان سے متصل صوبے – خیبر پختونخوا اور بلوچستان – دہشت گردی کے اضافے سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔مشکل امر یہ ہے کہ اب پاکستان میں ٹی ٹی پی ہو یا کوئی دوسرا گروہ سرگرم ہواس کا اس طرح سے اعتراف نہیں کیا جاتا بلکہ دہشت گردی کے واقعات کو اب ایک طرح سے ایک ایسی الگ نوعیت کی کارروائی سے تشبیہ دی جانے لگی ہے جس میں قانون نافذ کرنے والے اداروںکے افراد اور بالخصوص پولیس کو تاک کر نشانہ بنایا جاتا ہے خود پولیس بھی سب سے زیادہ اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے لگی ہے جس کی وجہ اچانک سے اور پراسرار طور پر ان کو نشانہ بنانے کے واقعات ہیں حکومت کبھی ٹی ٹی پی کے مذاکرات اور کبھی طاقت کے ذریعے کچل دینے کے مخمصے کا شکار ہے جس سے قطع نظر اس پیچیدہ صورتحال کا تقاضا ہے کہ اس کے حوالے سے کوئی خاص حکمت عملی مرتب کرکے اچانک رونما ہونے والے واقعات میں کمی لانے کسی اور واقعے کی صورت میں بروقت جوابی کارروائی اور تعاقب کی پوری تیاری رکھی جائے خفیہ معلومات اکٹھی کرنے والے اداروں پر خاص طور پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس سلسلے میں ہر سطح پر معلومات اکٹھی کرکے متوقع خطرے کی نشاندہی اور اس کی ممکنہ روک تھام پر توجہ دیں۔

مزید پڑھیں:  عدلیہ پردبائو؟