میرے وطن کی سیاست کا حال

قرآن کریم نے انسانی معاشروں کی تعمیر وترقی کے لئے تعمیر اخلاق پر بنیادی زور دیا ہے ‘ خاتم النبین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری سے قبل تقریباً 570 برس تک عیسیٰ علیہ السلام کے بعد کوئی نبی نہیں آیا تھا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات بائبل کی تشریح و توضیح بہت ساری تعبیرات شامل ہو گئی تھیں۔ یہی حال زبور و تورات کی تعلیمات کا ہو چکا تھا جس کی تجدید نو کے لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائے تھے ۔ لیکن ان کے بعد تقریباً ساڑھے پانچ صدیوں میں انسانیت کی اخلاقی زبوں حالی کی جو داستان قرآن کریم نے کہیں تفصیلی و کہیں اجمالی بیان کی ہے ‘ اس کے مطابق اس وقت چار دانگ عالم میں معاشرت ‘ معاشیات ‘سیاسیات اور سماجیات میں کہیں اخلاقیات کا نام و نشان نہ تھا۔ معاشروں میں کمزور عناصر کا بہت برا حال تھا ‘ انسان غلامی کی بدترین زندگی گزارنے پر اس حد تک مجبور تھا کہ اسے آزاد کرانے اور آزادی کے لئے جدوجہد کرنے پرآمادہ کرنا بہت مشکل کم ہوتا تھا ۔ خواتین کمزور صنف کے سبب ناقابل بیان مشکلات سے دوچارتھیں ۔ انسانی جان ‘ عزت و آبرو اور احترام آدمیت و انسانیت انسانی معاشروں سے مفقود ہو چکی تھی ۔ پوری کائنات میں فساد و بگاڑ زوروں پر تھا ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کائنات و مافیہا کی تخلیق عدل و انصاف پر کی ہے اور اس کی بقاء کے لئے بھی عدل و انصاف لازمی امر ہے ۔
اسی بناء پر قیامت تک اس کائنات کے نظام کو متوازن و معتدل اصولوں پر چلائے رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے خاتم النبین ۖ کو قرآن کریم کے احکام کی تعلیم اورعملی نفاذ کے لئے مبعوث فرمایا۔ اور پھرمدینہ طیبہ میں ایک ایسی ریاست وجود میں آئی جس کی بنیاد پرعدل و انصاف اور اعلیٰ اخلاقیات پر استوار ہوئی ۔ تقریباً ایک ہزار برس تک مسلمانان عالم ان منور تعلیمات سے رہنمائی لیتے ہوئے دنیا میں اعلیٰ و کامران رہے ۔ یہاں تک کہ بیسویں صدی میں جہاں اس بے مثال نظام کے علمبردار عثمانی خلافت غروب ہونے لگی تو برصغیر پاک وہند میں اسی ہی کی راکھ سے ایک چنگاری اٹھی اور بیس پچیس برس کے اندر شعلہ جوالہ بن کر ”پاکستان” کی صورت میں دنیا کے نقشے پر اپنا جلوہ دکھانے لگا۔
جہاں میں اہل ایمان صورت خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے ‘ ادھر نکلے ‘ ادھر ڈوبے ادھر نکلے
تحریک پاکستان اور ما بعد ہمارے اکابرین کے عزائم ‘ ان کی تقاریر سے بخوبی عیاں ہے مختصر لب لباب قیام پاکستان کا یہ تھا کہ یہاں مسلمانان برصغیر کوایک باعزت اور پرسکون زندگی نصیب ہو گی ‘اس کے علاوہ پاکستان میں نسل ‘ زبان اور مذہب و فرقہ کی تمیز کے بغیر ہر شہری کو بنیادی حقوق حاصل ہوں گے اور پاکستان اپنے سفارتی مشن کے ذریعے دنیا بھر میں کمزوروں اور بالخصوص فلسطین اور کشمیر جیسے علاقوں کے مظلوم ‘ مجبور اور مقہور مسلمانوں کے بنیادی حقوق کے لئے آواز اٹھائے گا لیکن واقسمتا! کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی آنکھوں کا بند ہونا ہی تھا کہ خود پاکستان کے مجبور و کمزور عوام بنیادی حقوق اور سہولیات کے لئے ترستے رہ گئے ۔ اپنے ہی ملک میں بنیادی حقوق کی محرومی نے بنگالیوں کو شدید احتجاج پر چوبیس برس تک مجبورکئے رکھا ۔ اسی سیاسی و معاشی ناا نصافیوں نے حسین شہید سہروردی جیسی دبنگ شخصیت کو دیار غیر میں آخری سانسیں لینے پر مجبور کیا۔ تب بنگالیوں نے بھارت جس کی ناانصافیوں سے نجات کے لئے اہم کردار اد ا کیا تھا ‘ کی مدد لیتے ہوئے پاکستان اور اہل پاکستان کے ماتھے پر کلنک کا ایک ایسا ٹیکہ لگوایا جو قیامت تک مٹنے کا نہیں اور نہ ہی اس سے پہلے ایسا شرمناک واقعہ تاریخ اسلامی میں پیش آیا تھا ۔
1971ء کے بعد کے پاکستان میں ایک دفعہ پھر ہمارے مقتدروں اور طاقتوروں کواللہ تعالیٰ نے موقع دیا کہ عبرت حاصل کرتے ہوئے یہاں ایک مثالی فلاحی اسلامی ریاست کے قیام کے لئے دن رات محنت کی جائے تاکہ قیام پاکستان کے مقاصد ‘ ایک ناقابل تلافی نقصان کے بعد ہی سہی ‘ کچھ توحاصل ہو سکیں۔ لیکن شاید ہمارے کرتا دھرتائوں نے قسم کھائی ہے کہ ہم عبرت حاصل نہیں کریں گے ۔
کسی بھی قوم وملک کی ترقی کیلئے موجودہ زمانے میں معیشت کا مضبوط ہونا بنیادی تقاضا ہے اور ہماری معیشت اس وقت جنوبی ایشیاء بشمول افغانستان سب سے کمزور ہے ۔ ہم سے تو افغانی اچھے ٹہرے کہ کم از کم کسی کے کھربوں میں مقروض تو نہیں’ اور غیرت مند اتنے کہ ان کے حکمران سادہ طرززندگی ار بود وبا ‘ کوئی کروفر نہیں۔ یار ‘ غضب خدا کا ‘ دنیا کے کسی ملک کی کابینہ 80 وزراء و مشیران پربھی مشتمل ہے؟ وزیر اعظم کے اتنے مشیر کہ شاید ان کویاد بھی نہ ہو کہ ان کی حکومت کن کن کے صائب مشوروں کے طفیل دن دگنی رات چوگنی ترقی کی راہ پرگامزن ہے ۔
سیاسی لحاظ سے تو پوچھنا ہی کیا ‘ اگرچہ شورش کشمیری نےآج سے کئی عشرے قبل وطن عزیز کی ساسیات کے بارے میں فرمایا تھا۔
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
کیا ایسا بھی کسی تہذیب میں ملک میں ہوسکتا ہے کہ عدالتوں میں کیس چلائے اور جرم ثابت ہونے سے قبل الزام کی بنیاد پر ہزاروں لوگوں بالخصوص نوجوان طلبہ اور خواتین کو جیلوں میں ناگفتہ بہ حالات سے دوچار کرکے اقبالی بیانات اور پریس کانفرنسوں پر مجبور کیاجائے ۔ جہاں تک تحریک انصاف کے موقع پرست اور مفاد پرست(یعنی الیکٹیبلز) کاتعلق ہے اس نے کپتان کوبہت زبردست سبق پڑھایا ۔ اب آئندہ ‘ اگرموقع ملا توبہت محتاط رہے گا’ ان شاء اللہ ۔ پاکستان میں سیاست دان ہیں کہاں؟ یہ سیاست دان کہلانے کے مستحق ہیں جو ہرموسم میں گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہیں ان ہی کمزور سیاستدانوں کے سبب طاقتوروں کوسیاسی امورمیں مداخلت کے مواقع ملتے ہیں اور پھر وطن عزیزکو ایسے ہی حالات سے دوچار ہونا پڑتا ہے جس کی دیگر جمہوری ملکوں میں کہیں مثال نہیں ملتی۔
جب کسی ملک میں حالات یوں ابتر ہوتے جاتے ہیں تب پرندے گھونسلا چھوڑے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ کیا کمال ہے کہ بسی بسائی مقبول سیاسی جماعت کو چند دنوں میں ادھیڑ کر رکھ دیاگیا ۔ پاکستان کی سیاست اخلاقیات کے زوال کاسبب مرغ بادنما جیسے الیکٹیبلز ہیں۔ جوکسی کے بھی وفادار نہیں ہوتے ‘ وہ صرف نفس کے بندے ہوتے ہیں اور ہر وقت ‘ ہر جگہ اپنے مفادات کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ کاش کپتان کو کوئی میری یہ عرض داشت پہنچا دے کہ اب صحیح معنوں میں ”گھبرانا نہیں” کاوقت آیا ہے اچھاہوا اب آپ کوبھلے برے کی تمیز پہلے سے بہتر طور پر ہوسکے گی۔ باقی مایوسی کفر ہے ‘ عوام کے دلوں میں آپ نہ بھی رہے توایک طویل مدت تک زندہ رہیں گے ۔ بشرطیکہ اپنی انسانی خامیوں اور کوتاہیوں کو رفع کردیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ورد میں رکھیں” اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو’ بے شک اللہ کی رحمت سے ناامید نہیں ہوتے ‘ مگر وہی لوگ جو کافر ہیں”اب شاید آپ پر وہ وقت بھی آئے کہ
ہم نے اس وقت سیاست میں قدم رکھا تھا۔جب سیاست کاصلہ آہنی زنجیریںتھیں
ایوب خان کے مارشل لا دور کو یاد کریں ‘ وہ دن بھی گزر گئے ‘ ضیاء الحق اور مشرف بھی گئے ۔۔ یہ بھی گزر جائے گا ۔۔ ان شاء اللہ اور بہت جلد وقت آنے والا ہے ۔۔۔ کہ لوگ پکار اٹھیں گے ”خبر آگئی راج دھاری کے”

مزید پڑھیں:  چوری اور ہیرا پھیری