کیا لوگ ہیں ہم!

شاہ محمود قریشی ”دبنگ شخصیت” چند ہفتوںکی بامشفقت قید گزار کر رہا ہوکر زمان پارک میں کپتان عمران خان سے ملاقات کیلئے تشریف لے گئے تھے۔ مختلف ذرائع سے جو خبریں چھن کر آئی ہیں ان کے مطابق شاہ جی کی طرف سے پیش کئے گئے تین نکات میں سے ایک بھی کپتان کو بھایا نہیں بلکہ دروغ برگردن راوی کپتان اور شاہ جی کے درمیان بات چیت کے دوران لہجہ معمول سے ہٹ کر بھی ہوا تھا، شاہ جی شخصیت، تجربہ اور خاندانی پس منظر کے حوالے سے پی ٹی آئی میں کپتان کے بعد دوسرے نمبر کے آدمی ہیں لیکن انقلابی قطعاً نہیں، یہی وجہ ہے کہ شاہ جی اور کپتان کے درمیان کسی بات پر موجودہ حالات کے پیش نظر اتفاق نہ ہوسکا۔ دراصل کپتان اگرچہ سادے آدمی ہیں لیکن اب تھوڑا بہت جاننے لگے ہیں کہ کون کون ہے؟Who is Who)) شاہ جی نے یقیناً یہ نکتہ پیش کیا ہوگا کہ چونکہ اس وقت مقتدر طبقات کو آپ قبول نہیں ہیں لہٰذا آپ نواز شریف کی طرح ذرا ایک دو قدم پیچھے ہٹ جائیں تاکہ کوئی خاقان عباسی یا پرویز اشرف جیسا کوئی دوسرا آسکے اور خان نے اس کو فی الفور مسترد کیا ہوگا، لوگ جاننا چاہیں گے کہ آخر کیوں؟ اس وقت اگر شاہ جی کو موقع دیا جاتا تو پارٹی بھی بچ جاتی اور خان بھی خیریت سے ذرا سائیڈ پر ہو جاتے لیکن شاید خان کے سامنے وہ ہزاروں نوجوان اور ان کی مائیں بہنیں تھیں جو خان کے نام پر اس وقت مختلف جیلوں میں اذیت اور تشدد کے مراحل سے گزر رہے ہیں، وہ کروڑوں نوجوان جو اگرچہ اس وقت تقاضائے حالات کے پیش نظر گھروں میں دبکے بیٹھے ہیں لیکن اس لمحے کا انتظار کر رہے ہیں کہ انتخابات کا دنگل کب سجے گا کہ خان کے ٹکٹ کے حامل کھمبوں کو بھی منتخب کروا کر بہت ساروں کو حیران و پریشان کردیں، لہٰذا شاہ جی کا آنا جانا اور ملاقات بغیر کسی مطلوبہ نتیجہ کے ختم شد۔
شاید شاہ جی کے جیل سے باہر آنے کے انداز اور ٹیپ ٹاٹ نے کپتان کو کچھ کچھ شک میں ڈال دیا ورنہ عمر سرفراز چیمہ بھی تو جیل میں ہیں ان کی اور شاہ صاحب کی ہیئت او حلیے میں بہت فرق ہے، شنید ہے کہ خان صاحب نے شاہ جی سے کہا ہے کہ کسی نے جو کرنا ہے کرلے میں اپنے حقیقی آزادی کے موقف سے کسی قیمت پر ہٹنے کیلئے تیار نہیں، بھئی ہو بھی کیسے سکتے ہیں؟ یہ کوئی مذاق ہے کہ جن نوجوانوں کی جانیں اسی را میں قربان ہوئیں اور ہزاروں کا مستقبل دائو پر لگا ہوا ہے ایسے میں خان صاحب سب کچھ کو خیرباد کہتے ہوئے کنارے لگ جائے۔ نیلسن منڈیلا نے ایسے ہی مواقع کیلئے کہا تھا” آزادی کیلئے ضروری نہیں کہ تم زمین و آسمان خریدلو البتہ یہ ضرور کرو کہ صرف اور صرف خود کو بیچو مت۔
دراصل مقتدر طبقات کو خان صاحب کے سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے اب بھی اگر فریقین ایک دوسرے کے بارے میں افہام و تفہیم سے کام لیں تو ملک و قوم ناقابل تلافی نقصان سے بچ سکتے ہیں، یہ بات یاد رکھیں کہ جب ایک انسان اپنے نصب العین یا مشن کیلئے اپنی جان دینے کیلئے تیار ہوجاتا ہے تو پھر پیچھے کیا رہ جاتا ہے۔ لہٰذا اب بھی وقت ہے کہ ملکی مسائل باہمی مذاکرات کے ذریعے اخوت اسلامی اور پاکستانیت کا مظاہرہ کرکے حل کئے جائیں ملکی مسائل ہوں یا بین الاقوامی مذاکرات ہی میں حل مضمر ہوتا ہے لیکن فارمیشن کمانڈررزکی میٹنگ کے اعلامیہ سے جو اہم نکات سامنے آئے ہیں وہ تو بہت ڈرانے والے ہیں، لگتا ہے کہ عمران خان اور ان کی پارٹی کیلئے مزید سختیاں آسکتی ہیں کیونکہ ہمارے ان ہی مقتدر طبقات نے 9 مئی کے واقعات کو 9/11 سے بھی تشبیہ دی ہے لیکن امریکہ میں تو آئین سے ماوراء اقدامات بہت مشکل بلکہ ناممکن سے ہوتے ہیں، اس لئے انہوں نے9/11 کے ملزموں کو اپنے ملک سے باہر رکھنے کیلئے کیوبا کے ویک جزیرے گوانتاناموبے کا انتخاب کیا ۔اگرچہ پاکستان کے پاس ایسی کوئی سہولت تو نظر نہیں آتی لیکن البتہ مارشل لاء میں اس کی اجازت ہوتی ہے، اگرچہ یہاں اعلان شدہ مارشل لاء تو نہیں ہے لیکن لوگوں کے بقول وطن عزیز میں اس وقت کارن مارشل لاء ہی کے لگتے ہیں لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ طاقت کا بے جا استعمال کبھی بھی مثبت نتائج نہیں دیتا۔ 9 مئی کے ملزم پاکستانی ہیں، نوجوان ہیں، تعلیم یافتہ ہیں انسان سے علطیاں ہوسکتی ہیں اور غلطیوں کی اصلاح بہت بڑا کام ہے لہٰذا ان نوجوانوں کو موقع دینا چاہئے کہ وہ اپنے کئے پر ندامت کا اظہار کریں یا اگر مقدمات چلانا ہی ضروری ہیں تو سویلین (عوام) کیلئے سول عدالتوں ہی پر اعتماد کرنا چاہئے۔
9/11 کی کوکھ سے جن حالات نے جنم لیا ہے وہ کسی طور پر بھی پاکستان اور عوام کیلئے خیر کا پہلو نہیں رکھتے کیونکہ اس سے بعض لوگ غلط طور پر استفادہ کرنے کے پیچھے لگے ہوئے ہیں، پی ڈی ایم نے کمال مہارت کے ساتھ پاک افواج کے جرنیلوں اور پی ٹی آئی کے چیئرمین اور کارکنوں کو آمنے سامنے لاکھڑا کیا ہے، عمران خان کی گرفتاری اور مابعد کے واقعات اور بیانات نے جلتی پر تیل کا کام کیا جس انداز میں پی ٹی آئی کے چند ”رہنمائوں” کو جیلوں میں ڈال کر اور پھر باہر نکال کر پریس کانفرنسز میں ایک مخصوص انداز میں مخصوص عبارت پڑھنے پر مجبور کیاگیا اس نے نہ صرف پاکستان میں جمہوریت کے مستقبل کو کمزور کیا بلکہ سیاسی ”شخصیات” کے کردار پر کلنک کے ٹیکے لگوا دیئے۔
ذرا تصور کیجئے کہ کل جو لوگ مصنوعی انداز اپنا کر پی ٹی آئی کو چھوڑتے ہوئے روہانسی بھی ہو رہے تھے اور سیاست سے بھی کچھ وقت تک کنارہ کش ہونے اور اپنے بچوں کو وقت دینا چاہتے تھے، آج نئی سیاسی پارٹی”استحکام پاکستان” کے افتتاح کے موقع پر شرماتے لجاتے ایسے خاموشی کے ساتھ بیٹھے تھے جیسا کہ کسی نے زبردستی کرکے لا بٹھایا ہے، اسی لئے آج کل پی ٹی آئی سے نکلنے والوں اور استحکام پاکستان میں شامل ہونے والوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ تو زبردستی کا طلاق اور پھر زبردستی نکاح حلالہ کے بغیر ۔۔۔۔ استحکام پاکستان پارٹی کے نام پر سوچا تو حیران و پریشان ہوگیا کیا پہلے سے موجود بڑی بڑی سیاسی جماعتوں میں پاکستان کو استحکام دلانے کی صلاحیت نہیں تھی ؟ اور کیا واقعی اس نئی نویلی سیاسی جماعت میں شامل ہونے والے ”سیاستدانوں” میں یہ صلاحیت اور قابلیت ہے کہ پہلے سے موجودہ سیاسی جماعتوں سے ذرا بڑھ کر کارکردگی دکھائے۔
سنا ہے کہ اس نئی پارٹی کیلئے مسلم لیگ ن نے اپنی بانہیں کھول رکھی ہیں اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کیلئے معاملات طے ہوں گے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہمارے ان سیاستدانوں میں ضمیر نام کی بھی کوئی چیز ہے؟ چوہدری فواد، عامر کیانی، عمران اسماعیل، مولوی محمود اور سب سے بڑھ کر علی زیدی جو پی ٹی آئی چھوڑنے کی صورت میں گولی سے مرنا پسندکرچکے تھے آج نئی سیاسی جماعت میں شامل ہوچکے ہیں۔
یار یہ جو انسان کی زبان ہے جس کے ذریعے قول و عہد کیا جاتا ہے اس کی کوئی اہمیت اور قیمت ہے کہ نہیں۔ چند ماہ قبل خان کے جلسوں میں یہ سب لوگ ببانگ دہل حلف اٹھاتے تھے کہ ہم پاکستان کی ترقی کلیئے عمران خان کے کندھے سے کندھا ملاکر جدوجہد کریں گے، عمران اسماعیل نغمے اور ترانے لکھ کر گایا کرتے تھے۔
بیس پچیس برس کا ساتھ چھوڑتے ہوئے ان کو کچھ بھی نہیں ہوا؟ ان کے اہل و عیال نے بھی ان کو کچھ نہیں کیا کہ آپ کیا لوگ ہیں، کل گھر میں پی ٹی آئی کے ہنگامے برپا کروایا کرتے تھے اور آج کہیں اور ہیں۔
مانتا ہوں دبائو برداشت کرنا ہر ایرے غیرے کا کام نہیں ہوتا اور لوگ مجبوری کے تحت بہت کچھ کرلیتے ہیں لیکن کم از کم اتنا جلد تو اپنے قول و قرار کو نہیں چھوڑتے چند دن واقعی منظر سے ہٹ کر کہیں چھٹ جاتے اور آرام کرتے اور اپنے قول کا بھرم رکھتے لیکن برا ہو پاکستان کی سیاست کاذبہ کا کہ
”آدمی کو کچھ سے کچھ کرلیتا ہے۔ اور بقول نظیر اکبر آبادی
سب آدمی ہی کرتے ہیں مردے کے کاروبار

مزید پڑھیں:  من حیث القوم بھکاری