گدھوں کی تجارت اور دیگر معاملات؟

قصابوں کو شاید انسانوں پر رحم آگیا ہے اور انہوں نے انسانوں کو گدھوں کا گوشت کھلانا بند کر دیا ہے یا پھر چین کے تاجروں نے پاکستانی گدھوں کے چمڑے درآمد کرنے کی جگہ کوئی متبادل بندوبست کر لیا ہے، پاکستانی گدھوں کی مانگ کم ہونے کی وجہ سے اب مارکیٹ سے ایسی کوئی خبر نہیں آرہی ہے کہ فلاں مقام پر گدھے کا گوشت فروخت کرتے ہوئے لوگ گرفتار ہوگئے ہیں، اس کی وجہ شاید یہ بھی ہو کہ چند ماہ پہلے یا شاید گزشتہ سال ایک خبر یہ بھی آئی تھی کہ چین اور پاکستان کے درمیان گدھوں کی تجارت کے حوالے سے ایک ماہدہ ہوا ہے جس کے تحت پاکستان میں گدھوں کے فارم قائم کئے جا رہے ہیں اس طرح بے چارے قصابوں کی دست برد سیسان کی گلو خلاصی ہوگئی ہوگی اس لئے تارہ خبرکے مطابق ملک میں گدھوں کی تعداد میں ایک لاکھ کا اضافہ ہوگیا ہے استاد رامپور نے کہا تھا
ہم گدھے کو گدھا سمجھتے ہیں
وہ ہمیں جانے کیا سمجھتے ہیں
یہ ایک اہم سوال ہے جس کا جواب مشہور لکھاری کرشن چندر نے تقریباً نصف صدی یا اس سے بھی کچھ پہلے اس دور کے ماہنامہ شمع ویلی میں قسط وار کہانی ”ایک گدھے کی سرگزشت” کے نام سے لکھ کر دھوم مچا دی تھی تاہم اب ہمیں یاد نہیں کہ اس کہانی میں کرشن چندر نے بھی اس بات کا کوئی جواب (گدھے کی زبان میں) دیا تھا یا نہیں اس حوالے سے اب یار طرحدار ڈاکٹر اویس قرنی سے استفسار کیا جاسکتا ہے جنہوں نے کرشن چندر پر ایک مربوط تحقیقی مقالہ لکھ کر یہ دعویٰ ضرور کردیا ہے کہ کرشن چندر بعد میں مسلمان ہوگئے تھے، اگرچہ اس بات کا اعلان انہوں نے برملا نہیں کیا تھا خیر جانے دیں ہم نے تو گدھوں پر بات کرنی ہے جن کا ذکر ہمارے روزمرہ میں اس قدر کیا جاتا ہے کہ اساتذہ جس طرح شاگردوں کو سبق یاد نہ کرنے پر ”الو کاپٹھا” قرار دیتے ہیں مگر بعد میں لفظ پٹھا کے معنی جاننے کے بعد اکثر سمجھدار استاد ”الو کا بچہ” کہنے پر مجبور ہوتے رہے اور کسی بھی وقت زبان پھسلنے کے خوف سے ”الو کا بچہ” کہنے کو بھی ترک کرکے ‘گدھے کا بچہ” تک اپنے مکالمے کو پہنچانے ہی میں عافیت جانی اور یہ جو اردو زبان میں عام طور پر ”بے چارے عوام” کو عوام کالانعام کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے تو یہاں ”کالانعام” کا لفظ زیادہ تر آدھے ہی سے منسوب کیا جاتا ہے خاص طور پر جمہوریت کے حوالے سے کم فہم افراد کے بارے میں یہی بات ذہن میں رکھ کر کہا جاتا ہے کہ
جمہوریت ایک طرز حکومت ہے جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
علامقہ اقبال نے مغربی جمہوریت کی اصلیت کو بھانپ کر ہی تو کہا تھا کہ
گریزاز طرز جمہوری غلامے پختہ کارے شو
کہ ازمغز دو صد خبر فکر انسانے نمی آئد
چلیں ہمارے ہاں تو تعلیم کی شرح قابل رشک کے باکل ہی برعکس قابل تشویش کے زمرے میں آتی ہے اور صرف دستخط کرنے والوں کو بھی ایک اور مغربی کلئے کے تحت یعنی فیصد کے حوالے سے ”خواندہ” قرار دے کر ملک میں تعلیم کی شرح کا تعین کیا جاتا ہے جبکہ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ امریکہ جیسے سو فیصد خواندہ معاشرے میں بھی انسانوں کے مقابلے میں گدھے کی اہمیت کا یہ عالم ہے کہ وہاں ایک سیاسی جماعت کا انتخابی نشان بھی”گدھا” ہی ہے اور وہ جو جمہوریت کے حوالے سے مغرب میں ایک بیانہ مشہور ہے یعنی جمہوریت عوام کی حکومت عوام کیلئے، عوام کے ذریعے، تو اسے ہمارے ایک مرحوم پروفیسر شمیم صاحب نے یوں بدل دیا تھا کہ ”جمہوریت گدھوں کی حکومت، گدھوں کیلئے گدھوں کے ذریعے” یہ بات بہت حد تک درست بھی قرار دی جاسکتی ہے کہ اگر امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے معاشروں میں جنہیں جمہوریت کا منبع قرار دیا جاتا ہے اپنے عوام کو گدھوں سے زیادہ اہمیت دینے کو تیار نہیں ہیں تو ہمارے جیسے ترقی پذیر یا کم ترقی یافتہ ممالک کا تو ذکر ہی فضول ہے حالانکہ ہمارے اہل علم نے اس دھوکے اور اس سے ملحق گورکھ دھندے کو بہت اچھی طرح سمجھ لیا ہے ۔ مثلاً گدھے کے بارے میں ایک فارسی کا شعر درست صورت میں یوں ہے کہ
خر عیسیٰ اگر بہ مکہ رود
بازگر دد ہنوز خراست
اگرچہ غلط العوام کے حوالے سے دوسرا مصرعہ یوں زیادہ مشہور ہے کہ ”چوں بیاید ہنوز خرباشد” مگر ہمارے کرم فرمائوں ہی کے نامور استاد ڈاکٹر غیور حسین نے ”بازگردد۔۔۔” والے مصرعہ کو درست قرار دیا ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے ہمارے استفسار پر ساتھ ہی میں عظیم صوفی شاعرحضرت رحمن بابا کا شعر بھی حوالے کیلئے لکھ دیا کہ
دمکے پہ بزرگئی کے سہ شک نیشتہ
ولے خر بھی حاجی نہ شی پہ طواف
اس کا مفہوم یہ ہے کہ مکے کی بزرگی میں کوئی شک نہیں ہے مگر گدھا مکے کا اطواف کرنے سے حاجی نہیں بن سکتا۔ جمہوریٹ کے حوالے سے ایک انگریزی کا مقولہ یہ بھی ہے کہ tyranny of majority یعنی اکثریت کی آمریت جمہویریت بن جاتی ہے، بات گدھوں کی تعداد سے ہوتے ہوئے جمہوریت سے منسوب کرنے کا تعلق ہے تو اس میں ایک تو دنیا کے ہر خطے میں عوام کو ”گدھے” سے زیادہ اہمیت نہ دینے کا فلسفہ یقیناً کار فرما ہے تاہم اہل مغرب گدھے کو اس لئے بھی اہمیت دیتے ہیں کہ ان کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی سواری کیلئے دسیتاب معلومات کے مطابق گدھے ہی کو استعمال کرتے تھے اور دوسرا یہ کہ صلیبی جنگوں پر مغربی ممالک کو اکٹھا کرنے کیلئے جو پادری سرگرم تھا وہ بھی گدھے پر ملکوں ملکوں گھوم کر مسلمانوں کے خلاف عوام کو اکٹھا کرتا رہا ہے، بہرحال اگر پاکستان میں اصلی گدھوں کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچ گئی ہے تو عوام کو اللہ کا شکر بجا لانا چاہئے کہ اب انہیں گدھوں کے گوشت سے نجات مل گئی ہے حالانکہ ہمارے ہاں لالچ اور خود غرضی نے کچھ طبقات کی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے اور ان سے خیر کی توقع کرنا بقول فردوسی یوں ہے کہ
زبد اصل چشمی بہی داشتن
بود خاک دردیدہ انباشتن

مزید پڑھیں:  تجاوزات اور عدالتی احکامات پرعملدرآمد کا سوال