ضرورت ہے خود احتسابی کی

میری ناقص رائے میں کسی بھی باشعور اور ذمہ دار پاکستانی کیلئے موجودہ ملکی صورت حال سے لاتعلق ہونا کسی بھی طرح سے مناسب نہیں، یہ کہنا کہ میرا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اس بات سے لاعلمی کا مظہر ہے کہ آقا کریم ۖ کائنات کے سب سے عظیم مدبر سیاست دان تھے، لاتعلق ہونا نہیں بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ اس سب کو کیسے دیکھا جائے، اس بارے میں ایک عام انسان کی فہم و فراست کا کیا ذکر کرنا، میں نے جب ایک بڑے استاد سے کہا کہ تکریم شہداء کے حوالے سے تقریب کا انعقاد کیا جا رہا ہے آپ اپنے شعبے سے کچھ بچوں کو بھجوا دیں تو کہنے لگے کہ میں تو اس کے خلاف ہوں میں بچوں سے کچھ نہیں کہوں گا، ہونا تو یہ چاہئے کہ ایک یونیورسٹی کے استاد کو تمام اہم معاملات کا سب سے بہتر ادراک ہو اور اس کی رائے سب سے مختلف ہو اور اس سے بھی اہم کہ اس کے پاس چاہے جیسے بھی حالات ہوں، آگے بڑھنے کا راستہ ضرور ہو اور وہ نہ صرف اپنے طلبہ بلکہ سماج کے تمام اہم عناصر کی ممکنہ رہنمائی کر سکے، میری رائے میں یہاں سب سے اہم کردار فرد کا ہے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق کوشش کرے اور ممکنہ فہم ودانش سے ایک معتدل رائے قائم کرے جس کا محور اور مرکز صرف اور صرف ملک خداداد پاکستان ہو، ہر شخص مثبت انداز میں اپنا اپنا کردار ادا کرے کیونکہ ہر ایک سے اس بارے میں ضرور پوچھا جائے گا، ایسا کرتے ہوئے اگر تاریخ پر بھی نظر رکھی جائے تو معاملات کو سمجھنے میں آسانی ہو سکتی ہے، بنو امیہ کے ظالم اور سفاک گورنر حجاج بن یوسف جب خانہ کعبہ پر آگ کے گولے پھینک رہا تھا تو اس وقت عبداللہ بن زبیر نے جواں مردی کی تاریخ رقم کی، انہیں مسلسل ہتھیار پھینکنے کے پیغامات موصول ہوئے مگر آپ نے انکار کر دیا، اپنی والدہ حضرت اسمائ سے مشورہ کیا، انہوں نے کہا کہ اہل حق اس بات کی فکر نہیں کیا کرتے کہ ان کے پاس کتنے مددگار اور ساتھی ہیں، جاؤ تنہا لڑو اور اطاعت کا تصور بھی ذہن میں نہ لانا، ابن زبیر نے سفاک حجاج بن یوسف کا مقابلہ کیا اور جام شہادت نوش فرمایا، حجاج نے آپ کا سر کاٹ کر خلیفہ عبدالمالک کو بھجوا دیا اور لاش لٹکا دی، خود حضرت اسما کے پاس پہنچا اور کہا تم نے بیٹے کا انجام دیکھ لیا، آپ نے جواب دیا ہاں تو نے اس کی دنیا خراب کر دی اور اس نے تیری آخرت خراب کر دی ہے، حجاج بن یوسف جیت گیا، عبداللہ بن زبیر ہار گئے، وقت گزر گیا، اسی طرح عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے کئی مرتبہ امام ابو حنیفہ کو قاضی القضاة بننے کی پیشکش کی مگر آپ نے ہر مرتبہ انکار کیا، ایک موقع پر دونوں کے درمیان تلخی اس قدر بڑھ گئی کہ منصور کھلم کھلا ظلم کرنے پر اتر آیا، اس نے انہیں بغداد میں دیواریں بنانے کے کام کی نگرانی اور اینٹیں گننے پر مامور کر دیا جس کا مقصد امام اعظم کی ہتک کرنا تھا، منصور نے امام ابوحنیفہ کو کوڑے بھی مارے اور اذیت ناک قید میں رکھا، بالآخر قید میں ہی انہیں زہر دے کر مروا دیا گیا، سجدے کی حالت میں آپ کا انتقال ہوا، نماز جنازہ میں مجمع کا حال یہ تھا کہ پچاس ہزار لوگ امڈ آئے، چھ مرتبہ نماز جنازہ پڑھی گئی، منصور جیت گیا، امام ابو حنیفہ ہار گئے، وقت گزر گیا، تاریخ میں ہار جیت کا فیصلہ طاقت کی بنیاد پر نہیں ہوتا، اب دیکھیں کہ ان واقعات میں تاریخ نے کیا کیا ثابت کیا، حجاج بن یوسف کو آج ایک ظالم اور جابر حکمران کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جس کی گردن پر ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کا خون ہے جبکہ حضرت عبداللہ بن زبیر شجاعت اور دلیری کا استعارہ ہیں، حجاج کو شکست ہو چکی ہے ابن زبیر فاتح ہیں، جس ابو جعفر منصور نے امام ابوحنیفہ کو قید میں زہر دے کر مروایا، ان کے مرنے کے بعد ایک جیسی سو قبریں کھودی گئیں اور کسی ایک قبر میں اسے دفن کر دیا گیا تاکہ لوگوں کو یہ پتہ نہ چل سکے کہ وہ کس قبر میں دفن ہیں، یہ اہتمام اس خوف کی وجہ سے کیا گیا کہ کہیں لوگ ان کی قبر کی بے حرمتی نہ کریں، یاد رہے کہ آج سے ٹھیک ایک سو سال بعد ہم میں سے کوئی بھی زندہ نہیں ہوگا، تاریخ ہمیں روندتی ہوئی آگے نکل جائے گی، آج یہ فیصلہ کرنا قدرے مشکل لگتا ہے کہ ہم میں سے کون تاریخ کی صحیح سمت میں کھڑا ہے اور کون تاریخ کے غلط دوراہے پر ہے، کون حق کا ساتھی ہے اور کون باطل کے ساتھ کندھا ملائے ہوئے ہے، کون سچائی کا علمبردار ہے اور کون جھوٹ کی ترویج کر رہا ہے، کون دیانت دار ہے اور کون بے ایمان، کون ظالم ہے اور کون مظلوم، ہم میں سے ہر کوئی خود کو ہی ٹھیک سمجھتا ہے اور اسی پر خوش بھی ہے اور اس جانب قرآن کریم نے بھی اشارہ کیا ہے، مگر ہم سب جانتے ہیں کہ یہ بات دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے کہ ہر کوئی حق پر ہے، کیونکہ اگر ہر شخص نے حق کا علم تھام لیا ہے تو پھر اس دھرتی سے ظلم اور ناانصافی کو اپنے آپ ختم ہو جانا چاہئے تھا اور ہر قسم کی ذلت ، رسوائی اور زوال ہمارا مقدر نہ ہوتے لیکن سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم اس منزل سے کہیں دور بھٹک رہے ہیں، آج سے سو برس بعد البتہ جب کوئی مورخ ہمارا احوال لکھے گا تو وہ ایک ہی کسوٹی پر ہم سب کو پرکھے گا مگر افسوس کہ اس وقت تاریخ کا بے رحم فیصلہ سننے کے لئے ہم میں سے کوئی بھی زندہ نہیں ہو گا، سو آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں کیوں نہ خود ذرا سی کوشش کرکے حق کو جاننے کی کوشش کریں کیونکہ سب حق پر نہیں ہو سکتے، حق تلاش کریں صرف اپنے لئے، سب کے لئے نہیں، اللہ پاک سورہ مائدہ میں فرماتا ہے کہ اے ایمان والو! تم پر اپنی جان کی فکر لازم ہے، اگر تم ہدایت پر ہو تو گمراہ تمھارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، تم سب کو اللہ کی طرف لوٹ کرجانا ہے، پھر وہ تمہیں بتائے گا جو کچھ تم کرتے تھے، اسی بات کو علامہ اقبال نے بھی بڑی خوبصورتی سے کچھ یوں بیان کیا ہے
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن
یہ دیکھیں کہ کہیں ہم حجاج کی طرح ظالموں کے ساتھ تو نہیں کھڑے، کہیں ہم امام ابوحنیفہ پر کوڑے برسانے والوں کے ساتھ تو نہیں کھڑے، کہیں ہم تاریخ کی غلط سمت میں تو نہیں کھڑے، اس سوال کا جواب تلاش کریں صرف اور صرف اپنے لئے، دوسرے کیا سوچتے ہیں کیا کرتے ہیں یہ سوچنا ہمارا کام نہیں، اور ایسا کرنے کے لئے ظرف چاہئے، کیا ہوا کہ اگر غلطی پر تھے ہم، وقت تو ہے ہمارے پاس، آئیں نئے سرے سے شروع کرتے ہیں، خود احتسابی کرتے ہیں، اگر ہم درست راہ پر چل رہے ہیں تو رفتار بڑھا دیں اور اگر راستہ ٹھیک نہیں تو فوراً راستہ بدل لیں، اوروں کو بعد میں سمجھائیں گے پہلے خود تو سمجھ لیں، وہ کہتے ہیں نا کہ جب ابراہیم کو آگ میں ڈالا جا رہا تھا تو ایک پرندہ چونچ میں ایک قطرہ لاتا اور آگ میں ڈال دیتا، کسی نے پوچھا یہ تمھارے ایک قطرے سے کیا ہوگا تو اس نے کہا کہ قیامت والے دن جب آگ لگانے والے اور آگ بجھانے الگ الگ کھڑے ہوں گے تو میں آگ بھجانے والوں کے ساتھ کھڑا ہوں گا، دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حق کو حق دکھائے اور اس کی پیروی کرنے کی توفیق عطاء فرمائے اور باطل کو باطل دکھائے اور اس سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

مزید پڑھیں:  پابندیوں سے غیرمتعلقہ ملازمین کی مشکلات