آئی ایم ایف کا دبائو

آئی ایم ایف سے مسلسل رابطوں کے نتیجے میں نئے معاہدے پر پہنچے کی امیدیں اگرچہ روشن ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں تاہم ان رابطوں کا اثر عوام پر مزید ٹیکسوں کی صورت میں پڑنے کے خدشات بھی بڑھ گئے ہیں اور اطلاعات کے مطابق آئندہ مالی سال کیلئے اخراجات میں85 ارب روپے کمی جبکہ215 ارب کے مزید نئے ٹیکسوں کی صورت میں عوام کو برداشت کرنا پڑیں گے، نئے ٹیکسوں کا اطلاق ترقیاتی فنڈز، تنخواہوں اور پنشن پر نہیں ہوگا جبکہ وفاقی حکومت کے اخراجات کا تخمینہ 14 ہزار 4 سو 80 ارب روپے ہو جائے گا ایک سے زائد پنشن ختم کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے، وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے تمام نکات پر عمل کرچکے ہیں 215 ارب کے ٹیکس ہم نے مانے ہیں معاہدہ ہو جائے تو بسم اللہ ورنہ گزارا تو ہو رہا ہے، آئندہ مالی سال کیلئے بجٹ اہداف تبدیل کرتے ہوئے ٹیکس وصولوں کا ہدف 9 ہزار دو سو ارب سے بڑھا کر 9 ہزار 416 ارب کردیا گیا ہے۔ ادھر اطلاعات آرہی ہیں کہ وزیراعظم شہباز شریف کے رابطے اور ملاقاتیں رنگ لے آئی ہیں اور آئی ایم ایف سے معاہدے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں، آئی ایم ایف اور حکومت پاکستان حتمی ڈیل کے قریب پہنچ گئے ہیں مزید مسئلہ یا تکنیکی دقت نہ ہوئی تو نواں جائزہ تکمیل کو پہنچ جائے گا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف اور حکومت پاکستان کی وزارت خزانہ کے درمیان گزشتہ تین دن سے مذاکرات جاری تھے جمعہ اور ہفتے کی رات بات چیت اور نئے درافٹ کی تیاری کا عمل جاری رہا، ذرائع کے مطابق ہفتہ کی صبح آئی ایم ایف اور وزارت خزانہ کی ٹیم نے نئے ڈرافت کو حتمی شکل دی ہے۔ ادھر وزیراعظم شہباز شریف کی آئی ایم ایف کی مینجنگ ڈائریکٹر کرسٹارلینا جارجیوا کے درمیان پیرس میں ملاقاتیں ہوئیں، وزیراعظم نے لندن ورانگی سے قبل ایم ڈی (آئی ایم ایف) سے تیسری ملاقات بھی کی اس ملاقات میں وزیراعظم نے آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان مکمل کرنے کے پاکستان کے عزم کو دوہرایا ۔ وزیراعظم نے پاکستان کی معاشی حقیقتوں سے متعلق غور پر عالمی مالیاتی ادارے کی ایم ڈی کی سوچ کو سراہتے ہوئے کہا کہ پاکستان تمام وعدوں کو پورا کرنے کا جذبہ اور عزم رکھتا ہے، وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کے شدید معاشی چیلنجز سے نکلنے میں دنیا کی معاونت کی قدرکرتے ہیں، سیلاب نے معاشی مشکلات کو مزید مشکل بنا دیا ہے، اس کے باوجود اپنے عوام کو ریلیف دیا ہے، وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کے عوام کو ریلیف ملنا ان کا حق ہے معاشی مشکلات نے عوام کو تکلیف میں مبتلا کیا ہے جوان کی برداشت سے باہر ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام کے ریلیف اور معاشی حقائق کے درمیان توازن چاہتے ہیں، معیشت کو واپس گروتھ کے راستے پر لانا آئی ایم ایف اہداف کے حصول کیلئے ضروری ہے، آئی ایم ایف کی ایم ڈی کرسٹالینا جارجیوا نے وزیراعظم سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کیلئے ان کے عزم کو سراہا اور کہا کہ آپ نے مشکل حالات میں ذمہ داری سنبھالی، آپ بہتری لانے کی طرف پوری کوشش کررہے ہیں۔ جہاں تک آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کا تعلق ہے اس میں قطعاً کوئی شک نہیں کہ بقول وفاقی وزیرخزانہ 215 ارب کے نئے ٹیکس ماننے کے باوجود اگر آئی ایم ایف معاہدہ کرتا ہے تو ٹھیک ورنہ گزارا تو ہو رہا ہے تاہم جس اہم نکتے کی جانب وزیراعظم شہباز شریف نے توجہ دلائی ہے یعنی گزشتہ برس کے سیلاب سے پیدا ہونے والی مشکلات تو بعض اطلاعات کے مطابق ماہرین موسمیات نے ایک بار شدید گرمی کے نتیجے میں گلیشیئر کے تیزی سے پگھلنے اور دریائوں میں ایک بار طغیانی کے نتیجے میں اس سال بھی گزشتہ سال کے برعکس زیادہ تباہ کن سیلاب کی آمد کے خدشات ظاہر کئے ہیں اور اگر خدانخواستہ اس حوالے سے ابھی سے احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کی گئیں تو پچھلے سال کی نسبت زیادہ تباہی پھیل سکتی ہے، زیادہ آبادیاں متاثر ہوسکتی ہیں، لوگ بے گھر ہوسکتے ہیں، فصلوں کی بربادی کی صورتحال بھی سال گزشتہ کی نسبت زیادہ گھمبیر ہوسکتی ہے، اس لئے دیکھنا یہ ہے کہ قدرتی آفات کی صورتحال کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت کن مشکلات سے دوچار ہوسکتی ہے، اس لئے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ناگزیر تو ضرور ہوجاتا ہے مگر جہاں تک عوام کو ریلیف دینے کے وزیراعظم کے دعوئوں کا تعلق ہے ہمیں نہیں لگتا کہ 215 ارب روپے کے مزید ٹیکس عائد کئے جانے کے بعد ان دعوئوں پر عملدرآمد ہونے کے امکانات روشن ہوسکیں گے، عوام گزشتہ کئی سال سے ٹیکسوں پر ٹیکس عائد کئے جانے کے بعد آزادی سے سانس لینے میں بھی مشکل کا سامنا کر رہے ہیں چند برس سے ہر سال نئے ٹیکسوں کے نفاذ کے بعد انہیں آئندہ سالوں میں آسانیاں بہم پہنچانے کے لالی پاپ تھمائے جارہے ہیں جبکہ خود مقتدر حلقے اپنے اللوں تللوں میں اضافہ کرکے عوام کے زخموں پر نمک پاشی کررہے ہیں جس کی تازہ مثال سینیٹ کے چیئرمین کی مراعات میں ”شاہانہ” اضافہ ہے، عوام بھوکوں مر رہے ہیں اور حکمران طبقہ ”قانونی لوٹ کھسوٹ” میں سرگرم ہے، ایک سے زائد پنشن کا خاتمہ ایک اچھا اقدام ہے تاہم کیا یہ بہتر نہیں ہوتا کہ ایک بار ریٹائرڈ ہونے کے بعد کسی کو بھی دوبارہ ملازمت فراہم کی جائے نہ ہی ملازمت میں توسیع دی جائے تاکہ خالی ہونے والی اسامیوں پر تازہ دم بے روزگار افراد بھرتی ہو کر بہتر انداز میں ملک و قوم کی خدمت کریں اور قومی خزانے کو نقصان بھی نہ ہو؟۔

مزید پڑھیں:  محنت کشوں کا استحصال