آبی بحران کے بڑھتے خطرات

یہ ہمارا قومی شعار بن گیا ہے کہ جوقدرتی وسائل میسرہیں ان کا اس بے دریغ طریقے سے استعمال کیا جاتا ہے کہ وہ تیزی سے کم ہوتے جارہے ہیں گیس کی مثال ہمارے سامنے ہے پہلے سردیوں میں گیس کی قلت آتی اور اب گرمیوں میں بھی صارفین کوگیس کی سہولت میسر نہیں اور اس کی راشن بندی سے بھی اب مسئلہ حل نہیں ہو پارہا۔پانی کا استعمال ہم جس بے دریغ طریقے سے کرتے ہیں اس کا ایک مظاہرہ تو عید الاضحی کے موقع پرہر کسی نے دیکھا ہوگا جس سے قطع نظر سروس سٹیشنز ہوں یا دیگر کاروباری ادارے یاپھر دفاتر اور گھر کسی بھی جگہ پانی کا استعمال کفایت سے کرنے کا رواج نہیں اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ صوبائی دارالحکومت سمیت صوبے کے مختلف علاقوں میں زیرزمین پانی کی سطح مسلسل گر رہی ہے جبکہ قدرتی چشمے خشک ہو رہے ہیں اس امر سے تشویشناک صورتحال کی عکاسی ہوتی ہے کہ پاکستان کی تقریباً80فیصد آبادی کو پینے کے صاف پانی تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ محققین نے پیش گوئی کی ہے کہ پاکستان2040 تک خطے میں سب سے زیادہ پانی کی کمی کا شکار ملک بننے کی راہ پر گامزن ہے۔2016 کی پی سی آر ڈبلیو آر کی رپورٹ کے مطابق پاکستان نے 1990 میں پانی کے دبائو کی لکیر کو چھو لیا تھا اور2005 میں پانی کی کمی کی لکیر کو عبور کر لیا تھا۔ اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو پاکستان کو پانی کی شدید قلت یا خشک سالی جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔زراعت کے لئے پانی دستیاب نہ ہوتو ملک میں زرعی پیداوار ‘ پھلوں اور سبزیوں کی پیداوار میں کمی کی صورت میں ہمیں جس بدترین صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اس کا تو تصور ہی خوفناک اور پریشان کن ہے زرعی پیداوار میں کمی کے اثرات سے معیشت بھی بری طرح متاثر ہو سکتی ہے دیکھا جائے تو اس وقت بھی یہ تمام صورتحال پاکستان کی معیشت کو بہت زیادہ نقصان پہنچا رہی ہے۔ پاکستان اسپیس اینڈ اپر ایٹموسفیئر ریسرچ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق صرف ماحولیاتی انحطاط کی سالانہ مالیاتی لاگت جی ڈی پی کی تقریباً 4.3فیصد کے برابر بنتی ہے۔ماہرین کے مطابق پاکستان کو گرین اکنامک ماڈل کی ضرورت ہے۔جس کا تقاضاتمام بڑے ہائیڈرو پاور اور کول پاور پراجیکٹس کو ختم کردیا جائے۔ ہوا اور شمسی توانائی کی طرف رجوع کیا جائے عملی حقائق یہ ہیں کہ پاکستان پہلے ہی بہت زیادہ قرضوں کے نیچے دبا ہوا ہے۔ وہ عالمی برادری کی مدد کے بغیر ان چیلنجز پر قابو نہیں پا سکتا اور یہ امداد قرضوں کی شکل میں نہیں ہونی چاہیے بلکہ مالی امداد کی صورت میں ہو۔

مزید پڑھیں:  حد ہوا کرتی ہے ہر چیز کی اے بندہ نواز