اعصاب شکن مذاکرات کے بعدمعاہدہ

پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اعصاب شکن مذاکرات کے بعد بالاخر3ارب ڈالر کا معاہدہ طے پاگیاخبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق اس کا اعلان قرض دہندہ ادارے کی جانب سے کیا گیا۔اس معاہدے کا پاکستان کو طویل عرصے سے انتظار تھا جس کی ڈولتی معیشت ملک کے دیوالیہ ہونے کے خطرے کا سامنا کررہی تھی۔اس کا فیصلہ تقریبا 8ماہ کی تاخیر کے بعد ہوااس کے باوجود یہ معاہدہ جولائی کے وسط میں آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے مشروط ہے، جس سے ادائیگیوں کے توازن کے شدید بحران اور گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر کی وجہ سے مشکلات کا شکار پاکستان کو کچھ مہلت ملے گی۔9 مہینوں پر محیط 3 ارب ڈالر کی فنڈنگ پاکستان کے لیے توقع سے زیادہ ہے، کیوں کہ ملک 2019 میں طے پانے والے 6.5 ارب ڈالر کے بیل آئوٹ پیکج سے بقیہ ڈھائی ارب ڈالر کے اجرا کا انتظار کر رہا تھا۔دریں اثناء وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہونا کوئی لمحہ فخریہ نہیں بلکہ لمحہ فکریہ ہے، قوم دعا کرے کہ یہ آخری مرتبہ ہو کہ پاکستان قرض لے رہا ہو اور اس کے بعد خدا کرے کہ ہمیں آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا پڑے۔لاہور میں وزیر خزانہ اسحق ڈار و دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ کئی ہفتوں سے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ ہونے والی بات چیت انتہائی مثبت نتیجے پر پہنچی ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ ایثار اور قربانی کا جذبہ خاندانوں اور قوموں کو مشکلات سے پاک کرتا ہے، قومی یکجہتی اور یکسوئی اور محنت ایسے عوامل ہیں جو قوموں کو مشکلات سے نکالتے ہیں۔پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان کامیاب معاملت سے پاکستان ڈیفالٹ کے خطرے سے تو بچ گیا لیکن اس قرض کی سود سمیت واپسی کے لئے پاکستان کے عوام کو جس طرح قربانی کا بکرا بنایا گیا اورابھی بنایا جانا ہے وہ اپنی جگہ اس کے اعلان کے روز ہی ڈیزل کی قیمتوںمیں ساڑھے سات روپے فی لیٹر اضافہ کیاگیا ہے ۔جس کے اثرات کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ سبھی کومعلوم ہے کہ اس سے مہنگائی بڑھتی ہے علاوہ ازیں بھی آئی ایم ایف سے حالیہ معاہدہ غیر مشروط نہیں بلکہ عالمی مالیاتی فنڈ نے سخت شرائط کو پوری طرح سے منوا لیا ہے اور پیشگی سخت اقدامات کے ساتھ ساتھ اب مزید سخت اقدامات کی بھی حکومت نے حامی بھری ہے جس کے اثرات جلد ہی ظاہر ہوں گے اور عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ در اضافہ کا سلسلہ جاری رہے گا۔اس کے اثرات جلد ہی مزید مہنگائی کی صورت میں واضح ہوں گے ۔ پاکستانی حکام کا آئی ایم ایف سے قرضے کے حصول کو حکومتی کامیابی گرداننا اور اس پر خوشی کا اظہار اس امر پردال ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو آئی ایم ایف سے حصول قرض بڑی منزل نظرآتی ہے ان کو اس بات کا افسوس ہونا چاہئے تھا کہ وہ کس مجبوری کے عالم میں کشکول بدست ہوئے ۔ ہماری مثال کشکول بدست قوم ہونے کے باوجود قرض کی پیتے تھے مے کی سی ہے یہ درست ہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے دور میں ایک مرتبہ ملک کو آئی ایم ایف کے چنگل سے چھٹکارا حاصل ہواتھا مگر بعدازاں کیا ہوا کہ اسکے بعد بار بار آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کی ضرورت پیش آتی رہی وطن عزیز میں نظر دوڑانے پر پاکستان مالی مشکلات کا شکار ملک ہر گز نظر نہیں آتا یہں شاہ خرچوں کی کمی نہیں اور ہر طرف شان و شوکت کے عوامل کی بھر مار نظر آتی ہے حکمرانوں خواہ وہ جس دورحکومت اور جس جماعتوں کے ہوں کسی ایک دور میں بھی سوائے سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو مرحوم کے دور کے کبھی بھی سنجیدگی کے ساتھ آئی ایم ایف سے چھٹکارے کی سعی نہیں کی گئی اگر قراردیا جائے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے دور میں آئی ایم ایف کے قرضوں کی ادائیگی کی بنیاد جونیجو دور میں بھی رکھی گئی تو مبالغہ نہ ہوگا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اگرسنجیدہ سعی ہو اور شاہ خرچیوں میں کمی لائی جائے تو مشکلات سے نکلنے کا راستہ مل سکتا ہے مگر یہں حصول قرض ہی کو مرض کا علاج گردانا جاتا ہے کسی اور طرزعلاج ک طرف کسی کی توجہ ہی نہیں جاتی۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ اس قدر مشکلات کا شکار ہونے اور بھاری قرضوں کے حصول کے باوجود ملک میں حکومتی اور عوامی دونوں سطحوں پرجس احساس کی ضرورت ہے وہ کہیں بھی نظر نہیں آتی حکومت بدستور شاہ خرچیوں میں مصروف ہے اور افسر شاہی کسی طور بھی سرکاری وسائل کے استعمال میں کفایت لانے پر آمادہ نہیں ایسے میں سارا بوجھ عوام ہی کی طرف منتقل ہوتا ہے جس کی کمر پہلے ہی دوہری ہو چکی ہے وزیر اعظم شہباز شریف نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے کیا یہ زیادہ بہتر نہ تھا کہ وہ کمر پر پتھر باندھنے کے اقدامات کا اعلان کرکے اس پرعملدرآمد میں سنجیدگی دکھاتے اور آئندہ کے لئے ملک و قوم کو اس طرح کی صورتحال سے دوچار ہونے کے راستے میں بند باندھتے انہوں نے ایسا کرنے کی بجائے بیان جاری کرنے کو کافی سمجھا ہرحکومت آئی ایم ایف سے قرض لے کر ملک و قوم پر مزید بوجھ لاد کر رخصت ہوتی ہے جب تک اس کااعادہ ہوتا رہے گا ہم ایک ڈیفالٹ سے بچ کر دوسرے ڈیفالٹ سے بچنے کی تگ ودو میں رہیں گے اور اس چکر سے قوم کوشاید ہی نجات ملے۔

مزید پڑھیں:  حد ہوا کرتی ہے ہر چیز کی اے بندہ نواز