فلسفہ قربانی، پاکستان و اشرافیہ کے تناظر میں

مسلمان پر سال ذی الحجہ کی دس تاریخ کو عید الاضحی مناتے ہیں، الاضحی اوراضحیہ عربی زبان میں قربانی یعنی جانور ذبح کرنے کو کہتے ہیں’ مسلمانان عالم یہ دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربانی کیلئے پیش کرنے کی یاد کو سنت ابراہیمی کے طور پر مناتے ہیں، قربانی بھی عربی زبان کا لفظ ہے اور تقرب سے نکلا ہے، یعنی وہ عمل جس کے ذریعے کسی عظیم ذات و ہستی کا تقرب حاصل کرنے کی سعی کی جائے، قربانی کے ذریعے مسلمان اللہ تعالیٰ کا قرب اور نزدیکی طلب کرتے ہیں، اس لئے ایسے قربانی کہتے ہیں، قربانی کی بہت ساری حکمتیں ہیں، ان سب میں اہم ترین تقویٰ اور اللہ کا قرب حاصل کرنا ہے، ارشاد گرامی ہے”آپۖ فرما دیجئے کہ بے شک میری نماز’ میری قربانی، میرا جینا اور مرنا سب خالص اللہ ہی کے لئے ہے جو سارے جہاں کا مالک”۔
کسی حلال جانور کا اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی نیت سے ذبح کرنا حضرت آدم علیہ السلام کے دور سے شروع ہوا، سب سے پہلے آدم علیہ السلام کے دو بیٹیوں ہابیل و قابیل نے دی، ہابیل نے ایک مینڈھے کی قربانی پیش کی اور قابیل نے اپنی کھیت کی پیدوار سے کچھ غلہ اور پھل پھول صدقہ کر کے قربانی کے طور پر پیش کئے، حسب دستورآسمانی آگ نازل ہوئی اور ہابیل کے مینڈھے کو کھا گئی، یہ قبولیت قربانی کی نشانی تھی اور قابیل کی قربانی دھری کی دھری رہ گئی، قربانی کے قبول ہونے یا نہ ہونے کی نشانی پہلے انبیاء کرام کے زمانے میں یہ تھی کہ جس قربانی کو آسمانی آگ کھا جائے تو قبول تصور ہوتی تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے قبل بعض اقوام میں اپنے بچوں کو ذبح کرنے کی رسم قربانی چلی آرہی تھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعے اللہ تعالی نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی منسوخ کروا کر دنبے کی قربانی کروائی اور یوں مسلمانوں کے لئے قیامت تک ہر سال حلال جانوروں کی قربانی کی تقریب رائج کروائی۔ تمام امتوں کے لئے قربانی کو جائز کرنے کا ہدف و مقصد یہ تھا کہ وہ صرف خداوند عالم کے سامنے سرتسلیم خم کریں اور جو کچھ وہ حکم دے اس پر عمل کریں ”اور ہم نے ہر قوم کے لئے قربانی کا طریقہ مقرر کر دیا ہے تا کہ جن جانوروں کا رزق ہم نے عطاء کیا ہے ان پر خدا کا ذکر کریں۔ پھر تمہارا خدا صرف خدائے واحد ہے، تم اسی کے اطاعت گزار بنو اور ہمارے گڑ گڑانے والے بندوں کو بشارت دے دو”۔
قربانی کا ایک فلسفہ یہ بھی ہے کہ خداوند عالم نے قربانی کو معاشرہ کے اتحاد و اتفاق کے عنوان سے پیش کیا ہے تاکہ امتوں اور قوموں کے درمیان اتحاد قائم ہو جائے اور معاشرہ کے افراد مختلف شکلوں میں ایک دوسرے سے متصل ہو جائیں’ خصوصاً تمام افراد اس قربانی سے استفادہ کریں اور اسی کے ذریعے قوموں میں مہر و محبت زیادہ ہوجائے، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اسی عظیم قربانی کے نتیجے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو خانہ کعبہ کی بنیادیں اٹھانے اور چار دانگ عالم سے لوگوں کو حج پر ہزاروں برس بلوانے کی سعادت نصیب فرمائی جو قیامت تک جاری رہے گی، خاتم النبینۖ نے ساڑھے تین ہزار برس بعد خانہ کعبہ، مطاف اور مقام ابراہیم علیہ السلام اور چاہ زمزم کی نشاندہی کی اور حج اپنے اصل مناسک کے ساتھ ایک لاکھ سے زائد صحابہ کے ساتھ کر کے انسانیت کے سامنے خطبہ حجة الوداع کی صورت میں ایک ایک دستور پیش کیا کہ اس پر آج بھی عمل کیا جائے تو کسی بھی ملک اور ساری دنیا میں امن قائم ہو جائے گا۔
” لوگو! تم پر اس مقدس ماہ ذی الحج کے مقدس ایام کی طرح ایک دوسرے کے جان مال اور آبرو محترم اور امانت ہیں یہ کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کوگورے پر اور کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں مگر تقویٰ کے ذریعے ۔”
ان مختصر مگر جامع و بلیغ تعلیمات کے ذریعے قیامت تک انسانوں کے درمیان زبان ‘نسل’ دولت و منصب اور رنگ و جغرافیہ کی بنیاد پر فضیلت و بڑائی کی جڑ کاٹ کر رکھ دی، اس کے ساتھ خواتین کے حقوق کے حوالے سے فرمایا کہ جس طرح عورتوں (بیوی) پر تمہارے حقوق ہیں، اسی طرح تم پر بیویوں (عورتوں) کے حقوق ہیں” تم سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کئے گئے تھے ۔”
پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو عظیم انسانی قربانیوں کے بعد اس لئے حاصل کیا گیا تھا کہ یہاں خاتم النبین صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لائی ہوئی مقدس شریعت کے مطابق نظام حکومت چلے گا جس میں اخوت اور مہر و محبت کے زمزمے گونجیں گے، ان لوگوں کو جنہوں نے جان ‘مال آبرو گنوائے، صرف اس لئے کہ پاک وطن حاصل کیا جا سکے ، کیا خبر تھی کہ ان کے وطن پر ایسا وقت بھی آئے گا کہ دیوالیہ ہونے کے خطرات سے دوچار ہوگا، اس کے علاوہ عظیم قربانیوں کے نتیجے میں حاصل ہونے اس ملک کی قوم میں اس بری طرح تقسیم ہو کر رہے گی کہ ملک کی وحدت مختلف اکائیوں میں بٹ کر رہ جائے گی، آج ہمارا پیارا ملک یقیناً مشکلات میں پھنسا ہوا ہے، پی ڈی ایم کی بعض جماعتوں اور پی ٹی آئی کے درمیان سیاسی اختلافات دشمنی میں تبدیل ہو چکے ہیں، ملک میں پہلی دفعہ پاک افواج کی تنصیبات وغیرہ پر حملے ہو چکے ہیں جو کام نو مئی سے آج تک متنازعہ چلے آرہے ہیں کہ پی ڈی ایم اور پاک افواج کے مقتدروں کا الگ دعویٰ ہے اور پی ٹی آئی والے الگ موقف پیش کرتے ہیں۔ اس وقت تنائو اس قدر سخت اور گہرا ہے کہ دس ہزار نوجوان ناگفتہ بہ حالات میں جیلوں میں بند ہیں، چادر و چاردیواری کا تقدس اس بری طرح ملک عزیزمیں کبھی پامال نہیں ہوا تھا، پانچ چھ بار عدالتوں سے ضمانت پر رہائی کے بعد پھر سے گرفتار ہونے کے سبب عدالتوں کا تقدس بری طرح مجروح ہوا ہے، اس طرح امت کی سطح پر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانیوں کو ایک رسم بنا کرادا کیا جاتا ہے اور فلسفہ پر عمل ایک خواب بن کر رہ گیا ہے’ اسی طرح پاکستان کے قیام کیلئے دی گئی قربانیوں کو پس پشت ڈالا گیا ہے جس کے نتیجے میں گزشتہ 75 برس سے مارشل لاء اور اشرافیہ کے درمیان ملک رلتا رہا ہے، پاکستانی اشرافیہ جس کو اشرافیہ لکھنے کو جی نہیں چاہتا ‘کہ اشرافیہ میں کچھ نہ کچھ صفات بھی تو ہوتی ہیں ‘ نے ملک کے وسائل کا بہت بری طرح استحصال کیا ہے اورعوام کوجینے کے لالے پڑ گئے ہیں۔
آج ملک ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے کہ یا تو مقتدر طبقات نے اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ تائب ہو کر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو متوجہ کرنے کے مواقع حاصل کرنا ہونگے ‘ ورنہ قرآن کریم کی تنبیہ کو یاد رکھنے کی ضرورت ہے ‘ پاکستانی اشرافیہ کو بالخصوص کو اس کو سامنے رکھنا ہوگا، ارشاد باری تعالیٰ ہے ”جب ہم کسی قوم ‘ ملک (قریہ) کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو ہم اس ملک کے ا مراء (اشرافیہ) کو احکام بھیجتے ہیں’ پھر وہ اس بستی (ملک) میں نافرمانیاں کرتے ہیں تو اس بستی پر بات پوری ہوجاتی ہے’ تو ہم اسے تباہ و برباد کر دیتے ہیں”۔پاکستان کی اشرافیہ کی بے اعتدالیوں کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آئی ایم ایف سے منت سماجت بلکہ انتہائی بے عزتی و شرمندگی کے بعد تین ارب ڈالرکے سودی قرضے کے حصول پر بھنگڑے ڈالتے ہیں لیکن بیرونی ملکوں کے بینکوں اور جائیدادوں کی صورت میں پڑے اربوں ڈالر میں سے اتنا لانے کے روا دار نہیں کہ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب نہ پہنچے، پھربھی کہتے ہیں کہ ملک کیلئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔
فاعتبروا یا اولی الابصار

مزید پڑھیں:  چوری اور ہیرا پھیری