ایک درست فیصلہ اور اعلان

وزیراعظم شہباز شریف کا یہ اعلان خوش آئند ہے کہ آئینی مدت پوری ہونے پر اسمبلیاں تحلیل ہونے پر حکومت ختم ہو جائے گی نیز یہ کہ الیکشن کی تاریخ کا اعلان اور شفاف انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کا کام ہے، ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف معاہدے سے راتوں رات مہنگائی کم نہیں ہوگی نہ ہی مہنگائی سے انکار ممکن ہے، یہ بھی کہا کہ اگر قرضوں سے جان چھڑانی ہے تو ہمیں ملک میں بیرونی سرمایہ کاری لانا ہوگی، وزیراعظم کے اس اعلان سے ایمرجنسی لگنے، اسمبلیوں اور حکومت کی مدت میں 6 ماہ یا ایک سال کا اضافہ کئے جانے کے پروپیگنڈے کے غبارے سے ہوا نکل گئی، گو یہ انتظام دستور کے مطابق ہوتا لیکن ملک جن حالات سے گزر رہا ہے انتخابات کے سوا کوئی بھی انتظام مسائل کو گھمبیر بنانے کا ذریعہ ہی بنتا۔ معاشی مسائل اور سیاسی عدم استحکام سے موثر نجات کی دو ہی صورتیں ہیں اولاً عوام دوست خود انحصاری پر مبنی معاشی پالیسی اور ثانیاً اسمبلیوں کی آئینی مدت کی تکمیل کے بعد مقررہ عرصہ میں انتخابات۔ انتخابات کے التواء اور آئینی انتظام کی باتیں پچھلے ایک سال سے کی جا رہی تھیں، باتیں کرنے والوں میں حکمران اتحاد کی بڑی جماعت (ن) لیگ کے بعض رہنماء اور مسلم لیگ میڈیا میں چہرہ سمجھے جانے والے تجزیہ نگار بھی شامل تھے، حال ہی میں نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت میں ہونے والی ملاقاتوں کے حوالے سے یہی چہرے تکرار کرتے دکھائی دیئے کہ (ن) لیگ 6 ماہ سے 1 سال کے لئے آئینی انتظام پر یکسو ہے لیکن پیپلز پارٹی نے اس معاملے میں ساتھ نہ دینے کا فیصلہ سنا دیا ہے۔ تجزیہ نگاروں کے اس گروہ نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ اگر پیشگی آئینی انتظام کے بغیر مقررہ وقت پر انتخابات ہوئے تو بساط الٹ سکتی ہے اس ممکنہ خطرے کا ذمہ دار پی پی پی کی قیادت کو ٹھہراتے ہوئے پچھلے چند دنوں میں جس قسم کے تجزیئے سننے میں آئے ان سے آزادی صحافت و اظہار کی ساکھ مزید متاثر ہوئی۔ بہرطور اب وزیراعظم نے مقررہ مدت پوری ہونے پر اسمبلیوں اور حکومت کی رخصتی کا عندیہ دے کر جہاں خود ان تجزیہ نگاروں کو آئینہ دکھایا ہے وہیں یہ بھی واضح کردیا ہے کہ کسی قسم کا ایسا آئینی انتظام زیرغور نہیں تھا جس سے انتخابات کی تاریخ آگے ہوتی، اصولی طور پر انتخابات کی تاریخ آگے ہونی بھی نہیں چاہئے، عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مقررہ آئینی مدت میں ہونے والے انتخابات میں اگلی آئینی مدت کیلئے اپنی سیاسی قیادت کا انتخاب کریں اور اسے حق حکمرانی سونپ دیں، فی الوقت یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ حکمران اتحاد دیگر اتحادیوں کے ساتھ مل کر مشترکہ امیدوار میدان میں اتارتا ہے یا چند جماعتیں کچھ حلقوں میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرکے انتخاب لڑتی ہیں، البتہ یہ درست ہے کہ انتخابات سے کوئی بھی منہ نہیں موڑ رہا،، سابق حکمران جماعت پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان بھی نہ صرف انتخابات کے مقررہ وقت پر انعقاد کے حامی ہیں بلکہ وہ تو یہ دعویٰ بھی کرتے دکھائی دے رہے ہیں کہ انتخابی عمل جب بھی ہوا ان کے عام کارکن مخالف سیاسی شخصیات کی سیاست کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیں گے، سیاسی عمل میں اس طرح کی دعویداری گاہے گاہے ہوتی رہتی ہیں۔ 2018ء کے انتخابی عمل میں بھی اگر باجوہ رجیم کی انتخابی مینجمنٹ اور مختلف ریاستی اداروں کی پی ٹی آئی کو اقتدار میں لانے کی پرجوش مہم شامل حال نہ ہوتی تو پی ٹی آئی کو اقتدار ملنا بہت مشکل تھا، باجوہ رجیم نے اپنے پیش روئوں اور اپنی سیاسی و انتظامی مینجمنٹوں اور سرمایہ
کاری کے نتائج حاصل کرنے کے لئے قوانین اور اقدار کو جس طرح پامال کیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، طویل عرصہ تک سیاسی عمل کے خلاف ففتھ جنریشن وار جیسے محاذ گرم رکھنے اور ایک مسیحا قوم کو دینے کے لئے پرعزم اداروں نے اس ملک کے ساتھ جو کھلواڑ کیا اس کے نتائج ابھی مزید بھگتنا ہوں گے۔ یہ درست ہے کہ سیاسی جماعتوں کے مختلف ادوار آئیڈیل نہیں ثابت ہوئے مگر یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ پندرہ برس کی پروپیگنڈہ مہم سرمایہ کاری اور دوسرے ہتھکنڈوں سے جس جماعت کو اقتدار دلوایا گیا وہ نااہلوں کا لشکر جرار ثابت ہوئی۔ اس سے بڑی نااہلی کیا ہوگی کہ وزیراعظم کو ان کی اہلیہ بتائے کہ ڈالر کی قیمت بڑھ گئی ہے، بہرطور ماضی کی نالائقیوں اور مفاد پرستی پر مبنی مینجمنٹوں کے نتائج آسانی سے جان چھوڑنے والے ہرگز نہیں، اس کے باوجود یہ امر دوچند ہے کہ آئین و جمہوریت سے انحراف نہیں ہونا چاہئے اور یہ کہ ہر دو کے برعکس مشورے دینے والوں کی حوصلہ افزائی بھی نہی کی جانی چاہئے۔ البتہ یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہوگی کہ انتخابات نہ صرف مقررہ وقت پر اور صاف و شفاف ہوں بلکہ ماضی کی طرح کی مینجمنٹ سے بھی گریز کیا جانا بہت ضروری ہے۔ پاکستان معاشی اور سیاسی بدانتظامیوں کی جس صورتحال سے دوچار ہے اس کی ذمہ داری مینجمنٹوں کے شوقین پر بھی عائد ہوتی ہے، جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ معاشی بہتری اور قرضوں سے نجات کے لئے بیرونی سرمایہ کاری لانا ضروری ہے تو اس پر دو آراء ہرگز نہیں۔ ہماری دانست میں بیرونی سرمایہ کاری لانے سے پہلے ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے کے لئے مناسب اور موثر اقدامات ہونے چاہئیں، ایک ایسے ملک میں کوئی باہر سے آکر سرمایہ کاری کیوں کرے گا جس کے اپنے سرمایہ کار بنگلہ دیش، ملائشیا اور متحدہ عرب امارات میں بھاری بھرکم سرمایہ کاری کئے ہوئے ہوں۔
بدقسمتی سے بیرون ملک سرمایہ کاری کرنے والوں میں حکمران طبقوں کے خاندان بھی شامل ہیں، اندریں حالات اگر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ بڑے پیمانے پر بیرونی سرمایہ کاری ضروری ہے تو پہلے حکمران طبقوں کے خاندان اپنا سرمایہ ملک میں واپس لائیں۔ فیصل آباد کی پاور لومز سمیت جو صنعتی ادارے بند ہیں انہیں بحال کرنے کے لئے موثر حکمت عملی اپنائی جائے، یہ بھی امر واقعہ ہے کہ ملک میں آسمان کو چھوتی مہنگائی راتوں رات کم ہوسکتی ہے نہ آئی ایم ایف معاہدہ سے اس میں کوئی کمی ہوگی۔ ویسے بھی ابھی سٹاف لیول پر معاہدہ ہوا ہے، آئی ایم ایف کا بورڈ آف گورنر کیا فیصلہ کرتا ہے پیشگی کچھ کہنا مشکل ہوگا، آئی ایم ایف سے سٹاف لیول معاہدہ پر سابق حکمران جماعت کو تنقید کرتے ہوئے اپنے گریبان میں ضرور جھانک لینا چاہئے کیونکہ تحریک انصاف نے پچھلے برس اپنی دو صوبائی حکومتوں کے وزرائے خزانہ کو آئی ایم ایف کو خط لکھنے کا کہا تھا کہ پاکستان سے مالیاتی معاہدہ نہ کیا جائے عمران خان اپنے ناکام لانگ مارچ سے خطاب کرتے ہوئے ایک سے زائد بار آئی ایم ایف اور قرضہ دینے والے ممالک کو کہتے رہے کہ موجودہ حکومت کو قرضہ نہ دیا جائے، واپس کرنے کی کوئی ضمانت نہیں ہے، اقتدار سے محرومی کے بعد اپنے ہی ملک اور نظام کو دفن کرنے میں پیش پیش رہنے والی سابق حکمران قیادت اب کس منہ سے آئی ایم ایف معاہدہ پر تنقید کررہی ہے؟ یہ عمومی رائے بہرطور درست ہے کہ پچھلے ایک سال سے بلاوجہ کی بڑھک بازی میں مصروف وزیر خزانہ اسحٰق ڈار اب اپنی نالائقی کو سٹاف لیول معاہدے میں چھپانے کی کوشش کررہے ہیں، بہرحال اس معاہدے سے حالات کتنے بہتر ہوں گے یہ تو آنے والے دنوں میں پتہ چلے گا، فی الوقت تو یہ ہے کہ سٹاف لیول معاہدے کے فوراً بعد حکومت کے وقت پر رخصت ہونے اور مقررہ وقت پر انتخابی عمل کے انعقاد کی خبر خوش آئند ہے، امید ہے کہ الیکشن کمیشن اپنے فرائض کی بجاآوری میں لیت و لعل سے کام نہیں لے گا۔

مزید پڑھیں:  مذاکرات ،سیاسی تقطیب سے نکلنے کا راستہ