قرآن کی بے حرمتی’ اہل مغرب اور عالم اسلام

سویڈن کے درالحکومت سٹاک ہوم میں ایک مسجد کے سامنے قرآن مجید کی بے حرمتی کی اجازت پر عالمی سطح پر ردعمل کا سلسلہ جاری ہے’ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ مغربی دنیا میں قرآن مجید یا پھر شعائر اسلام کی بے حرمتی کی گئی ہے’ مختلف مغربی ممالک میں ایک عرصے سے نہ صرف قرآن مجید کی بے حرمتی کی جاتی ہے بلکہ پیغمبر اسلام ہادی برحق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکات کی توہین اور ان کے حوالے سے توہین آمیز کارٹون شائع کرکے مسلمانان عالم کی دل آزاری کی جاتی ہے جبکہ بعض ممالک خصوصاً بھارت میں مساجد کو شہید کرکے اور بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام کرکے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے، ابھی حال ہی میں بھارت میں عیدالاضحی کے موقع پرمسلمانوں کو قربانی سے روکنے کی خبریں بھی سامنے آئی ہیں، اقوام متحدہ کے تہذیبوں کے اتحاد کے اعلیٰ نمائندے میگوئل اینجل مورائینوس نے ایک بیان میں سٹاک ہوم کی مرکزی مسجد کے سامنے قرآن پاک کی بے حرمتی کرنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذکورہ نفرت انگیز عمل عیدالاضحی منانے والے مسلمانوں کی توہین کے مترادف ہے’ انہوں نے کہا کہ اظہار رائے کی آزادی اہم ہے لیکن مقدس کتابوں’ مقامات اور علامتوں کی بے حرمتی ناقابل قبول ہے، اس طرح کی کارروائیاں تشدد کے ماحول کوجنم دیتی ہیں’ ادھر یورپین یونین نے قرآن پاک کا نسخہ نذر آتش کرنے کے واقعہ کو شدید انداز میں مسترد کرتے ہوئے اسے جارحانہ’ توہین آمیز اور اشتعال انگیزی پر مشتمل اقدام قرار دیا ہے’ ذرائع کے مطابق یورپی یونین نے ا علامیہ میں کہا ہے کہ یہ واقعہ قطعی طور پر یورپی یونین کے نظریات کی عکاسی نہیں کرتا’ نسل پرستی’ غیر ملکیوں کے خلاف تعصب اور اس سے متعلق عدم برداشت کی یورپ میں کوئی گنجائش نہیں’ اعلامیہ میں مزید کہاگیا ہے کہ یورپی یونین مقامی سطح پر اور دیگر ممالک میں بھی مذہب یا عقیدے کی آزادی اور اظہار رائے کی آزادی کی حمایت کرتا رہے گا’ جہاں تک مغرب کے اظہار رائے کی آزادی کے بیانئے کا تعلق ہے یہ مہمل پیرایہ اظہار ہے’ کیونکہ اسی کی آڑ میں وہ اپنے مذموم مقاصد کو تحفظ فراہم کرتا ہے’ کیونکہ ایک جانب شعائر اسلام کی بے حرمتی کی مذمت ضرور کرتا ہے تاہم دوسری جانب وہ آزادی اظہار رائے کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے اپنے معاشروں میں موجود برخود غلط اور اسلام کے خلاف منفی سوچ رکھنے والے متعصب افراد کو ”کھلی چھوٹ” دے کر بری الذمہ ہونا چاہتا ہے’ آزادی ا ظہار رائے ہو یا پھر کوئی اور آزادی’ ہر ایک کی حدود قیود ہوتی ہیں’ کسی کے مذہب اور اس سے متعلقہ شعائر یا اہم مقدس شخصیات’ ان کی بے حرمتی کو اظہار رائے کی آزادی کے ساتھ نتھی نہیں کیا جاسکتا’ مگر گزشتہ کئی برس سے مغربی دنیا میں جس طرح اسلامی شعائرکی بے حرمتی کی جا رہی ہے یہ جان بوجھ کر اور شعوری طور پر اس لئے کی جاتی ہے تاکہ مسلمان ان پر رد عمل دیں اور اہل مغرب اسلام اور دہشت گردی و انتہاء پسندی کے مابین رشتہ جوڑ کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنے خُبث باطن کا اظہار کر سکیں’ اقوام متحدہ کے تہذیبوں کے اتحاد کے اعلی نمائندے کا بیان ہو یا یورپی یونین کا بیانیہ، اسے وقتی طور پراسلامی شعائر کے خلاف بد تہذیبی پر مبنی اقدام کے حوالے سے پیدا ہونے والے رد عمل کو ٹھنڈاکرنے کی کوشش کے سوا کچھ بھی قرار نہیں دیا جا سکتا’ کیونکہ اقوام متحدہ نے بھی اس حوالے سے ایک لائحہ عمل اختیار کرنے پر زور دیا ہے تو اصولی طور پر اس کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہئے مگر اس کے باوجود کسی نہ کسی طور کبھی نہ کبھی اسلامی شعائر کی بے حرمتی کے اقدامات سر اٹھا لیتے ہیں اور یہ سلسلہ مستقل طور پر رکنے میں نہیں آرہا ہے’ کیونکہ اس حوالے سے فرانس کی حکومت کے اپنے ہاں بدبختوں کی سرکاری سرپرستی بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، تازہ ترین واردات کے خلاف اسلامی تعاون تنظیم کی ایگزیکٹو کمیٹی نے آئندہ ہفتے ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ہے جس میں ضروری اقدامات سے متعلق اجتماعی موقف اپنایا جائے گا’ اگرچہ دوسری جانب سویڈن کی حکومت نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ واقعہ انفرادی ہے اور سویڈن کی حکومت اس کو مسترد کرتی ہے، ادھر ایک تصویر وائرل ہوئی ہے جس میں روس کے صدر پیوٹن کو دیکھا جا سکتا ہے جس نے قرآن حکیم کو سینے سے لگا کر اپنی حکومت کے موقف کو واضح کیا ہے’ جبکہ ترکیہ کے صدر اردوان نے ایک بیان میں کہا ہے کے اہل مغرب کو سکھائیں گے کہ مقدس کتاب اور عام کتاب میں کیا فرق ہے’ آزادی رائے کے نام پر کسی اسلامی کتاب کی بے حرمتی کرنا کسی صورت قبول نہیں ہے، امر واقعہ یہ ہے کہ کتاب مقدس ہو’ اسلامی شخصیات ہوں’مذہبی مقدس مقامات ہوں ‘ کسی بھی حوالے سے ان کی بے حرمتی کو قبول نہیں کیاجا سکتا مگر بدقسمتی سے خود عالم اسلام کے اندر اس وقت جو تفرقہ اور عدم اتفاق کی صورتحال ہے اس کی وجہ سے مسلمان مذہب کے معاملات پر بھی تقسیم در تقسیم کے مسئلے سے دو چار ہیں’ کیونکہ جومسلمان ملک دولت و ثروت کے مالک ہیں ان کے مالی ‘ اقتصادی’ معاشی اور تجارتی مفادات مغربی دنیا اور برصغیر میں بھارت کے ساتھ وابستہ ہیں اور اسی وجہ سے یہ اس قسم کی اسلام دشمن سرگرمیوں پریک آواز ہونے کوتیار نہیں ہیں’ وگرنہ ایک وہ وقت بھی تھا جب او آئی سی کے ایک موقف کے سامنے غیر مسلم قوتیں سرنگوں ہوجاتی تھیں’ اس لئے اگر اسلامی شعائر کی تقدیس بحال کرنی ہے تو اوآئی سی کے پلیٹ فارم کو بھرپور طریقے سے استعمال کرنا پڑے گا بصورت دیگر تمہاری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔ وما علینا الالبلاغ

مزید پڑھیں:  پہلے تولو پھر بولو