مشرقیات

عام طور پر محفل میں آم کو بڑے قرینے اور سلیقے سے کھال چھیل کر اور گٹھلی سے قاشیں کاٹ کر پیش کیا جاتا ہے جو یقیناً کھانے والے کو بھی کچھ عجیب عجیب سا لگتا ہے بلکہ پیش کرنے والا بھی دل ہی دل میں یہی سوچتا ہو گا بھلا یہ بھی کوئی قرینہ ہے آم کھانے کا ،اس نفاست اور سلیقے کی ایسی تیسی۔
آجکل آموں کا سیزن ہے۔وقت اور زمانہ کوئی بھی ہو آم کھانے کا صحیح لطف جب ہی آتا ہے جب ایک بالٹی یا ٹب میں ڈھیروں آم ڈال کر بالٹی اور ٹب کو برف سے لبا لب بھر دیا جائے . فرش پہ دری بچھا دی جائے اور تکلف بر طرف سب معززین صرف بنیان پہن کر اس ٹب یا بالٹی کے گرد آلتی پالتی مار کر بیٹھ جائیں اور بے تکلفی سے میٹھے آموں کا رس چوستے جائیں اور لطف اٹھاتے جائیں اس منظر کو دیکھ کر چچا غالب کے منہ سے نکلا تھا۔
**کہ کاٹ کے کھانے کے ہم نہیں قائل
جو کہنیوں سے نہ ٹپکے وہ آم رس کیا ہے **
آم کو صحیح طریقے سے کھانے کا اصل لطف اِسی عوامی انداز میں ہی ہے.کہ ان کو کھانے کیلئے کسی تکلف کو آڑے نہ آنے دیا جائے. آم کے ذکر پہ ہمارے منہ سے آم کھائے بغیر ہی خوامخواہ رال ٹپک پڑتی ہے
جس کا مطلب یہی ہے کہ ہمیں آم کھانے کا بے حد شوق ہے ۔آموں کا تحفہ بھیجنا عرصہ دراز سے ہماری ثقافت اور روایت رہی ہے، ویسے بھی ہمارے ہاں تو آموں کے ٹوکرے اور پیٹیاں تحفتاً بھیجوانا ہماری مقامی اور بین الاقوامی سیاست کا بھی مزاج بن چکا ہے. ویسے پاکستان میں تاجر برادری لین دین کے معاملے میں پیٹی کا کوڈ ورڈ بھی استعمال کرتی ہے جس سے غالباً انکی مراد ایک لاکھ روپے ہوتی ہے۔
جدید اندازمیںبنائی گئی آم کی پیٹی سے فقط چار آم ہی برآمد ہوتے ہیں. ان چار آموں کو دیکھ کر دل مسوس جاتا ہے کانوں میں ایک مشہور غزل کا چار دن والا مصرعہ گونج اٹھتا ہے جس میں شاعر عمر دراز اور چار دن کا گلہ کرتا نظر آتا ہے اور وہ چار دن بھی، دو آرزو میں کاٹتا ہے دو انتظار میں .وہ تو زندگی کے چار دن کا رونا روتا تھا یہاں اتنے ذیادہ پیسوںکی ادائیگی کے بعد اتنے سے آم ملنے کا صدمہ ہے. سو صاحبو یوں ان گنتی کے چند آموں کو دیکھ کر یہی طے کیا جاتا ہے’ دو آم آج کھاؤں گا دو کو کل کھانے کی آرزو میں سنبھال کے رکھ دیتا ہوں’ آپ سب بہتر جانتے ہیں آرزو اور انتظار دونوں کا ہی اپنا اپنا لطف بھی ہے۔
ویسے آم کھانے کے شوقین اور رسیا ہمیشہ یہی کہتے ہیں ‘آم ہوں اور ڈھیروں ہوں ‘اور اس آم کو کھانے کا صحیح لطف یہی ہے کہ آم کا رس کہنی سے تو ضرور ٹپکے !!!

مزید پڑھیں:  عدلیہ پردبائو؟