مغرب انتہا پسندی کی راہ پر

سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعے پر اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی کی ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں اردن، انڈونیشیا، ملائیشیا، آذربائیجان، متحدہ عرب امارات، بحرین اور پاکستان سمیت رکن ممالک کی ایگزیکٹو کمیٹی کے ارکان کی موجودگی میں۔ او آئی سی کے سیکرٹری جنرل حسین ابراہیم طہٰ کا کہنا تھا کہ قرآن پاک اور پیغمبر اسلام کی بے حرمتی کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جاسکتا، اس کے لئے بین الاقوامی قانون کے فوری اطلاق کی ضرورت ہے جو منافرت کو پھیلنے سے روکتا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے تمام اسلامی ممالک مشترکہ حکمت عملی اپنائیں اور ٹھوس اقدمات کریں۔او آئی سی نے تمام ممالک پر عائد ذمہ داری کا اعادہ کیا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت نسل، جنس، زبان یا مذہب کی تفریق کے بغیر انسانی اور بنیادی حقوق کا احترام اور ان کی پابندی کا فروغ تمام ریاستوں پر فرض ہے۔دریں اثناء سویڈن کی جانب سے قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعے کو انفرادی قرار دے کر مستردکرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سویڈش حکومت اسلاموفوبیا پرمبنی اس عمل کو سختی سے مسترد کرتی ہے دوسری جانب یورپی یونین نے ردعمل میں کہا ہے کہ واقعہ جارحانہ اور بے عزتی پر مبنی اشتعال انگیزی کا واضح عمل ہے، یہ عمل کسی بھی طرح یورپی یونین کی رائے کی عکاسی نہیں کرتا۔ نسل پرستی، نفرت انگیزی اور عدم برداشت کی یورپ میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ واقعہ کے خلاف عالم اسلام سراپا احتجاج ہے اور دنیا بھر میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔یہ قابل مذمت واقعہ اسلامو فوبیا کا مظہر اور اٹھاون اسلامی ممالک اور پونے دوارب مسلمانوں کے ایمان کے لئے چیلنج ہے۔ سویڈن میں قرآن کریم کی سرکاری سرپرستی میں بے حرمتی سے واضح ہے کہ مغربی استعماری ممالک مسلمانوں کو کسی قسم کی اہمیت دینے کو تیار نہیں۔ مغرب کا اپنا نظام بری طرح ناکام ہوچکا ہے اور اب وہ اسلام کی حقانیت تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔یہ ہمیشہ سے واضح رہا ہے کہ مختلف قسم کی نسل پرستی اور دائیں بازو کی انتہا پسندی، تارکین وطن مخالف جذبات اور عسکریت پسندی کے عروج کے درمیان ایک علامتی تعلق ہے۔ یہ عوامل ایک دوسرے کے پنپنے کا باعث بنتے ہیںنائن الیون کے بعد کے سالوں میں، پوری مغربی دنیا میں اسلامو فوبیا میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے، اور جسے بڑی حد تک نظر انداز کر دیا گیا ہے۔یہاں تک کہ مسلمان مائوں بہنوں اور بیٹیوں کے سروں پر اسکارف پہننے اور میناروں پر پابندی لگا دی گئی اور ان کے ساتھ تیسرے درجے کے شہریوں کا سلوک کیا گیا اسلامو فوبیا کو معمول بنا لیا گیا۔افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ وہاں کی ایک بے پرواہ میڈیا اور سیاسی طبقہ کو اس سے کوئی سروکار نہیں اور ان کو مسلمانوں کے جذبات کا ذرا بھی احساس نہیں بلکہ وہ افسوسناک طور پر اس کے دفاع کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اسلام فوبیا مغرب میں نائن الیون سے پہلے بھی عروج پر تھی اور ان کی مخصوص ذہنیت کا مظاہرہ مختلف مواقع پرسامنے آتا رہا ہے یہاں تک کہ ہالی ووڈ میں مسلمانوں کو صرف دہشت گرد کے طور پر پیش کیا جاتا رہااس کے ردعمل میں القاعدہ جیسی تنظیمیں وجود میں آئیں اور مسلمانوں کا اپنے مذہبی شعائر کی یوں بے حرمتی پر رد عمل بہر حال فطری امر تھا جس کے مظاہر کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اسٹاک ہوم میں قرآن کی بے حرمتی کرنے والے شدت پسند نے کہا ہے کہ وہ دوبارہ ایسا ہی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جو ڈھٹائی کی انتہا اورمسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے کی سچی سمجھی سازش ہے بہرحال جہاں دنیا بھر سے مذمت کا سلسلہ جاری ہے، او آئی سی نے ان نفرت انگیز حملوں کے دوبارہ ہونے کی مذمت کی ہے اور ایک ہنگامی اجلاس میں قرآن پاک کی بے حرمتی سمیت مذہبی منافرت کے واقعات کو روکنے کے لیے بین الاقوامی قوانین کے استعمال سمیت اجتماعیاقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔سویڈن نے بھی اس واقعے کی مذمت کی ہے مگر حیران کن امر یہ ہے کہ اسی قابل مذمت واقعے کو روکنے کی کوشش نہیں کی گئی سویڈش پولیس نے کیا سوچ کر اسے آزادی اظہار کے تحفظ کے مطابق اجازت دی یہ وہی سویڈن ہے جہاں جنوری میں ایک سویڈش ڈنمارک کے دائیں بازو کے انتہا پسند نے قرآن مجید کے ایک نسخے کی بے حرمتی کی تھی مگر اس کے باوجود اس طرح کے واقعات کی روک تھام کی طرف وہاں کی حکومت متوجہ نہیں ہوتی معاملات پہلے ہی سویڈن کے لیے قدرے مشکل ہیں جن کی نیٹو کی رکنیت کی درخواست، جو ایک سال قبل جمع کرائی گئی تھی، کو رکن ترکی اور ہنگری نے بلاک کر رکھا ہے۔ آیا یہ تازہ واقعہ مزید مسائل کی طرف لے جاتا ہے یا نہیں، یہ ابھی واضح نہیں ہے۔ لیکن ایک بات یقینی ہے کہ اسلامو فوبیا کے بارے میںمغرب کو مسلمانوں کی آوازوں کو اب نہ صرف سننا ہو گا بلکہ اس طرح کے اقدامات کے حوالے سے روس کے صدر جیسا رویہ بھی اپنانا ہو گا اور اس نفرت انگیز عمل کو قانونی طور پر روکنا ہوگا جس کی ابتداء حالیہ واقعے کے ذمہ دارملعون کو سزا دینے سے ہونی چاہئے اقتصادی مہاجرین اور پناہ گزینوں کے خلاف گفتگو میں بھی تشویشناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ سٹاک ہوم کے واقعے کے اسی دن، ایک شخص کو امریکہ میں پہلی مسلم ریاست کی نمائندہ مریم خان پر حملہ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ دائیں بازو کے سیاست دانوں اور رجعت پسندانہ سوچ میں اضافے نے رجعتی انتقامی کارروائیوں کی انتہائی شکلوں کو جنم دیا ہے۔ حالات خراب ہونے سے پہلے اس طرح کے واقعات کے تدارک پر توجہ دینا ہو گی اور مسلمانوں کی جانب سے انفرادی و گروہی طور پر کسی ممکنہ سخت ردعمل کی روک تھام کے لئے ان کی تشفی ہونی چاہئے تاکہ رعمل میں ایسے واقعات پیش نہ آئیں جس سے دنیا کا امن متاثر نہ ہو اور جس سے نمٹنا مغرب کے لئے بھی چیلنج ثابت ہو۔

مزید پڑھیں:  عدلیہ پردبائو؟