مستقبل کے اقتدار کی میراتھن

پی ڈی ایم کی جماعتیں پاکستان کے عوام کے مقدر کے فیصلے دوبئی اور لندن میں کر رہی ہیں ۔جس پر ملک کے سنجیدہ سیاسی حلقے اپنا اعتراض ریکارڈ کروا رہے ہیں ۔امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ ملک کی تقدیر کے فیصلے واشنگٹن دوبئی اور لندن میں ہو رہے ہیں ۔شیخ رشید کا بھی انہی جذبات پر مبنی ایک بیان سامنے آیا ہے ۔جوں جوں موجودہ حکومت کی مدت اقتدار کے دن کم ہو رہے ہیں مستقبل کی سیاسی صورت گری کا احساس انہیں ہلکان کئے جا رہا ہے ۔پی ڈی ایم کی جماعتیں حصہ بقدر جُثہ وصول کرنے کی دوڑ میں شامل ہو چکی ہیں ۔مستقبل کے نقشے میں اپنے حصے کے لئے جاری یہ میرا تھن شاہراہ دستور پر جاری ہوتی تو کچھ عجب نہ تھا کہ سیاسی قوتوں مستقبل کے خاکے بنانے کا حق ہوتا ہے مگر اس میراتھن کا مرکز ملک سے باہر ہے ۔پی ڈی ایم کے قائدین حیلوں بہانوں سے کسی بیرونی ملک میں جمع ہو کر اپنے معاملات طے کرتے ہیں ۔اس طرح ملک کی فیصلہ سازی کی کلید ملک کے اندر سے باہر منتقل ہو چکی ہے ۔پاکستان کے مستقبل کا سیاسی نقشہ پاکستان کے اندر تیار نہ ہونا ایک المیہ ہے ۔پچیس کروڑ عوام کاایٹمی صلاحیت کا حامل ملک دودہائی قبل کے افغانستان کا منظر پیش کر رہا ہے جب طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد افغانستان کے تمام سیاسی کردار جرمنی کے شہر بون میں جمع ہوکر ملک کے مقدر کے فیصلے کر رہے تھے ۔بون کانفرنس کے یہی فیصلے افغانستان میں اقتدار کی تقسیم کی بنیاد بنے تھے۔جن کے تحت حامد کرزئی صدر افغانستان بنائے گئے تھے اور باقی عہدے شمالی اتحاد کے حصے میں آئے تھے ۔آج پاکستان میں مستقبل کے منظر نامے کی تراش خراش کے لئے بون کانفرنس کی طرح دوبئی کانفرنس ،لندن کانفرنس واشنگٹن کانفرنس کے نام سے بیٹھکیں چل رہی ہیں اور یہ مشق پاکستان کی نیک نامی میں کوئی اضافہ نہیں کر رہی ۔جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں حالات اس قدر ناساز گار ہیں کہ اس کے راہنما ملک کی حدود کے اندر بیٹھ کر فیصلے کرنے سے قاصر ہیں۔آئین کے تحت چلنے والے کسی بھی ملک میں طاقت اور اختیار کاسرچشمہ اس ملک کے عوام ہوتے ہیں اور عوام کی نمائندگی پارلیمنٹ کے ذریعے منعکس ہوتی ہے مگر پاکستان میں عوام کی اہمیت اس قدر گھٹ کر رہ گئی ہے کہ اب پارلیمنٹ بھی محض ربر سٹیمپ بن گئی ہے ۔من پسند سیاسی فیصلوں کے لئے پارلیمنٹ کے استعمال نے اس عوامی فورم کی اہمیت کو کم کر دیا ہے ۔ملک کے مقدر کے جو فیصلے شاہراہ دستور پر پارلیمنٹ کے اندر ہونے چاہئے تھے وہ اب بیرونی ملکوں کے دارالحکومتوں میں ہورہے ہیں ۔حکمران اتحاد کی دو اہم رکن جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی مستقبل کے شراکت اقتدار کے لئے فارمولے طے کرنے کے لئے بیرونی دنیا کا سہارا لے رہے ہیں ۔پچہتر برس بعد بھی یہ ملک اور اس کی قیادت اپنی ملکی حدود میں بیٹھ کر فیصلے کرنے سے قاصر ہیں تو اسے ایک المیہ ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔یہ قوموں اور ملکوں کے سیاسی طور پر زوال پزیر ہونے کا ثبوت ہوتا ہے ۔نائن الیون کے بعدافغانستان میں جب بون کانفرنس ہو رہی تھی تو اس کی میزبانی اقوام متحدہ نیٹو اور بیرونی این جی اوز کر رہی تھی جواسے افغانوں کے درمیان گرینڈ ڈائیلاگ یا لویہ جرگہ قرار دے رہی تھیں ۔اس لویہ جرگہ میں وہ سب عناصر جمع تھے جو امریکہ برطانیہ جرمنی اور دیگر یورپی ملکوں میں مقیم تھے مگر اس کانفرنس میں اس وقت کی گراونڈ کی اصل قوت طالبان موجود نہیں تھے ۔طالبان کو حرف غلط کی طرح مٹادیا گیا تھا اور یہ فرض کر لیا گیا تھا کہ یہ فورس دوبارہ افغانستان کے منظر پر نہیں اُبھر سکے گی ۔زمینی حقائق اس کے برعکس تھے ۔طالبان بکھر تو گئے تھے مگر ان کے لوٹ کر آنے کا امکان موجود تھا ۔بون کانفرنس میں جو نکتہ موجودہ نہیں تھا وہی اصل حقیقت تھا اور وہ یہ تھا کہ” اگر طالبان واپس لوٹ آئے تو ” ؟ افغانستان کے وارلارڈز ،سیاسی مفکر سابق جہادی کمانڈر ،ماہرین معیشت ،سابق پارلیمنٹیرین سب اس ایک نکتے کو نظر انداز کرکے مستقبل کے منصوبوں اورمناصب اور عہدوں کے لئے لڑ رہے تھے ۔وقت نے ثابت کیا کہ بون کانفرنس میں جس نکتے کو درخوراعتنا ہی نہیں سمجھا گیا تھا وہی اصل نکتہ تھا کیونکہ سال ڈیڑھ سال بعد طالبان دوبارہ افغانستان کے منظر پر نمودار ہو رہے تھے ۔پھر جو کچھ ہوا تاریخ کا حصہ ہے ۔بون کانفرنس کے نتیجے میں خلائوں میں ہی اقتدار کا کیک تقسیم ہوگیا مگر زمین پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ اس فیصلے میں زمینی حقائق کو مدنظر نہیں رکھا گیا تھا ۔آج پاکستان کی حکمران جماعتیں عوامی سطح پر زیادہ برتر اور بہتر پوزیشن میں نہیں اور اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے وہ اپنے فیصلوں کے لئے لندن دوبئی اور واشنگٹن جیسے شہروں کا انتخاب کر رہی ہیں۔اس طرح کے سیاسی فیصلوں سے ملک میں ایک حکومت بھی قائم ہوجائے گی اور ظفراللہ جمالی ،شجاعت حسین اور شوکت عزیز ٹائپ وزیر اعظم بھی قوم کو مل جائے گا مگر اس سے پاکستان کے حقیقی مسائل اپنی جگہ رہیں گے ۔ایک جینوئن سیاسی انتظام ہی پراعتماد ہو کر عوام کے مقدر کے بارے میں بڑے اور مثبت فیصلے کر سکتا ہے۔ملک اس وقت جس اقتصادی چیلنج کا سامنا کررہا ہے اس کا حل مصنوعی نظام میں نہیں ۔نئی تراکیت نئی حکمت عملی اور دودرس اثرات کے حامل فیصلے ہی ملک کو واپس پٹڑی پر لاسکتے ہیں ۔ایم کیو ایم بہادر آباد ایم کیو ایم حقیقی اور ایم کیو ایم عزیزآباد جیسے تجربات ایک شہر کی حد تک تو کارگر ہوسکتے ہیں مگر خطرات میں گھرے اور کئی قسم کے چیلنجز کا سامنا کرنے والے ملک میں اس طرح کے فیصلے بارآور نہیں ہو سکتے ۔ماضی میں بھی ملک میں صرف ایک ہی اصول ”ڈنگ ٹپائو ”رائج رہا ۔ڈنگ تو ٹپتا رہا مگر اس پالیسی اور روش سے آج کی نسل کا دم گھٹ کر رہ گیا ہے۔پی ڈی ایم کی جماعتیں اقتدار کی چکا چوند میں اور اپنے حریف کو پابندیوں میں جکڑاہو ا دیکھنے کی خوش میں دوبئی اور لندن کی بیٹھکوں میں بون کانفرنس کے شرکاء کی طرح ایک نکتہ فراموش کئے بیٹھے ہیں کہ عمران خان کی مقبولیت کا کیا کرنا ہے ؟پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کی مقبولیت میں اتنا فرق آگیا ہے کہ پولنگ بوتھوں پر اس کو اُلٹ دینا اور ختم کرنا آسان نہیں ہوگا ۔ٹویٹر کا ایک معمولی سروے بھی بہت زیادہ فرق دکھاتا ہے ۔رائے عامہ کے تمام جائزے زمینی حقیقت ہیں اور دوبئی کے پلان خلائوں کی باتیں ہیں۔یوں تو پاکستان میں کچھ بھی ہوسکتا ہے یہاں خواجہ آصف شام کو ہار کرسوتے ہیں تو صبح میڈیا انہیں جیت کی نوید سناتا ہے اور وہ خود اس معجزے کے راوی ہیں۔دوبئی میں بیٹھ کر پاکستان کی زمینی حقیقتوں کو نظر انداز کرکے فیصلے الیکشن کے دن نہ سہی مگر اس کے کچھ عرصہ بعد اپنا رنگ دکھا سکتے ہیں ۔

مزید پڑھیں:  سیاست اپنی جگہ صوبے کا مفاد مقدم