ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں

آئی ایم ایف سے قرضے کے ایک حصے کی رقم کی یقینی دہانی کے ساتھ ہی اس کے اثرات سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں جس کے بعد حکومت کم از کم اس قابل ہوگئی ہے کہ وہ حالات پر قابوپانے کی سعی کرے اور سٹہ بازوں و ڈالر کی تجارت کرنے والوں کا راستہ روکنے کے بعد اقدامات کے قابل ہو امر واقع یہ ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے پاکستانی روپے پر مثبت اثرات مرتب ہونا شروع ہو گئے ہیں، جس کے بعد گزشتہ روز انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں 10روپے55 پیسے کمی ہوئی اور ڈالر کی انٹربینک قیمت275.44پر آگئی ۔ گیارہ مئی کو انٹر بینک میں ڈالر ریکارڈ298روپے تھا تاہم غیر یقینی صورتحال کے پیش نظرپشاور کی مقامی کرنسی مارکیٹ میں دوسرے روز لوگ ڈالر فروخت کرنے سے گریزاں رہے ۔ دوسری طرف ملک میں گزشتہ روز ہی سونے کی قیمت میں بڑی کمی ہوگئی، فی تولہ سونے کا دام2ہزار200روپے گر گیا۔ماہرین کا بھی اس امر پر اتفاق ہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدے سے ملکی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور ملک میں سرمایہ کاری کا ماحول بحال کرنے میں مدد ملے گی۔ آئندہ چند روز میں روپے کی قدر میں بہتری ہوئی تو سونے کی قیمت میں مزید کمی دیکھی جا سکتی ہے ۔ آئی ایم ایف سے معاہدے کا انتظار صرف پاکستان کو ہی نہیں بلکہ عالمی مالیاتی نظام پر نظر رکھنے والی غیر ملکی ریٹنگ ایجنسیوں کو بھی تھا۔ معاہدے کی خبر آتے ہی موڈیز انویسٹر سروس نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام سے میکرو اکنامک استحکام آئے گا۔ مگر پاکستان کو ریونیو میں اضافے کے علاوہ معاشی اور انتظامی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ قلیل مدت میں معاشی مشکلات کا سامنا رہے گا۔ بلند شرح سود کے باعث حکومتی اخراجات اور کاروباری سرمایہ کاری محدود رہے گی۔ آئی ایم ایف معاہدے کی منظوری سے سرکاری لیکویڈیٹی میں معمولی بہتری آئے گی۔ آئی ایم ایف معاہدہ دیگر دو طرفہ اور کثیر الجہتی شراکت داروں سے قرض اور مالیاتی اعانت کے حصول میں مدد گار ثابت ہوگا۔موڈیز کا کہنا ہے کہ مالی سال 2024 میں بیرونی قرضوں کی ادائیگی زیادہ رہے گی۔ اب بھی غیر یقینی ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف کی 3 ارب ڈالر کی مکمل فنانسنگ حاصل کر سکے گا یا نہیں۔ اکتوبر2023میں ہونے والے انتخابات میں محصولات کے حوالے سے کیے جانے والے اقدامات کا امتحان ہوگا۔ پاکستان کو اگلے چند سالوں میں اپنی بڑی مالیاتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ایک طویل مدتی بیرونی فنانسنگ پلان کی ضرورت ہے۔نیز پاکستان کو ایک اور آئی ایم ایف پروگرام کی بھی ضرورت پڑے گی۔ پاکستان کسی اور پروگرام میں شامل ہوگا یا نہیں یہ انتخابات کے بعد ہی واضح ہو سکتا ہے۔خوش آئند امر یہ ہے کہ پاکستان کے عالمی مارکیٹ میں جاری کردہ بانڈز کی قیمتوں میں بھی نمایاں اضافہ دیکھا گیا اور بعض سرمایہ کاروں نے ان بانڈز کی خریداری کی ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف اور پاکستان میں معاملات طے پانے کے بعد غیر ملکی سرمایہ کاروں میں پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کے خدشات دم توڑ رہے ہیں اور وہ پاکستان جیسی منافع بخش مارکیٹ میں واپس آنا چاہتے ہیں۔مگر یہ حوصلہ افزاء صورتحال کافی نہیں بلکہ پاکستان کو مالیاتی نظم و نسق بہرحال قائم کرنا ہوگا اور اپنے ٹیکس بیس کو بڑھانے، حکومتی خسارے کو کم کرنے اور سرکاری کاروباری اداروں میں اصلاحات کے ذریعے خسارے کو کم کرنا ہوگا یا انہیں منافع بخش بنانا ہوگا تاکہ حکومتی بجٹ پر پڑنے والے اس بوجھ کو کم سے کم کیا جاسکے۔پاکستان کو آئی ایم ایف معاہدے کے بعد دوست ممالک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے 3 ارب ڈالر کے مساوی رقم ملنے کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔جن کی جانب سے بھاری سرمایہ کاری کی یقین دہانی حاصل کر لی گئی ہے جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ محولہ تمام حوصلہ افزاء صورتحال کے باوجودماہرین اور تجزیہ کار اب بھی پاکستان کی معاشی خوشحالی کو خطرے میں ڈالنے والے بنیادی خطرات سے خبردار کر رہے ہیں۔ عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں موڈیز اور فچ نے گزشتہ روز ہی اس امر کی نشاندہی کی ہے کہ اسلام آباد کو اس مالی سال میں قرض دہندگان کو اب بھی 25 بلین ڈالر واپس کرنے کی ضرورت ہے یہ معمولی رقم نہیں اس کا انتظام کرنا ہوگا اس لئے کہ فی ا لوقت حکومت کے پاس اتنی رقم موجود نہیں اگرچہ آئی ایم ایف ڈیل کے مثبت محرک کو اسٹاک اور غیر ملکی زرمبادلہ کی منڈیوں کا خیرمقدم کیا ہے اس کے باوجود حالات تسلی بخش نہیںفاریکس اور اسٹاک تجزیہ کاروں دونوں نے خبردار کیا ہے کہ یہ سب ایک عارضی فائدہ ہے اس بات پر سبھی کا اتفاق ہے کہ جب تک بنیادی اصول طے نہیں ہوتے یعنی جب تک پاکستان معیشت میں اصلاحات اور اپنے بنیادی عدم توازن کو دور کرنے کے لیے ایک منظم منصوبہ پر عمل نہیں کرتا سکھ کا سانس نہیں لیا جاسکتا۔

مزید پڑھیں:  بے جے پی کی''کیموفلاج''حکمت عملی