یومِ تقدیسِ قرآن اور چند معروضات

وزیراعظم شہباز شریف نے جمعہ7 جولائی کو یوم تقدیس قرآن مجید منانے اور سویڈن میں قرآن مجید کی بے حرمتی کے خلاف ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا ہے، قبل ازیں سابق وزیراعظم عمران خان بھی قوم سے اس سانحہ کے خلاف احتجاج کی اپیل کرچکے ہیں، مناسب ہوتا کہ اگر حکومت اور اپوزیشن مشترکہ اعلامیہ کے ذریعے ملک گیر احتجاج کا اعلان کرتے۔ اطلاع یہ ہے کہ جمعہ کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلاکر مذمتی قرارداد بھی منظور کروائی جائے گی، سویڈن میں حکومت کی اجازت کے ساتھ ایک عراقی تارک وطن کا قرآن مجید کی بے حرمتی کرنا اور عراق کا پرچم جلانا محض آزادی اظہار کا حق قرار نہیں دیا جا سکتا، سویڈن حکومت نے ماضی میں بھی اس طرح کے مذموم کاموں کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی بلکہ اپنے عمل کو آزادی اظہار کے تحفظ کا نام دیا۔ دنیا بھر کے مسلمان یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ کس قسم کی آزادی اور شخصی حق ہے کہ کوئی شخص جب چاہے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرے اور اس عمل کو آزادی اظہار کا نام دے کر بودی دلیلیں پیش کی جائیں۔ قرآن مجید کی توہین کا یہ پہلا واقعہ نہیں پھر بھی اگر یہ دریافت کرلیا جائے کہ کیا سویڈن میں ریاستی قوانین کی خلاف ورزی کو آزادی اظہار کا تحفظ مل سکتا ہے؟ یقیناً اس سوال کے جواب میں یہی کہا جائے گا کہ ریاستیں ہوتی ہی اس لئے ہیں کہ مادر پدر آزادی کی بجائے قاعدے قانون کو رواج دیں اور قانون کی حاکمیت قائم کریں، یہی درست جواب بھی ہے مگر کیا کسی ریاست کا یہ فرض نہیں ہوتا کہ وہ اپنی حدود میں ایسی سرگرمیاں نہ ہونے دے جس سے خود اس ریاست کے ایک طبقے بلکہ دنیا بھر میں پائے جانے والے ان کے کروڑوں ہم خیالوں کے جذبات مجروح ہوتے ہوں؟ مسلم ممالک کے عوام بھی اپنی حکومتوں کی معرفت ایک طویل عرصہ سے یہی مطالبہ ہی تو کررہے ہیں کہ آزادی اظہار کی حدود طے نہ ہوئیں تو معاملات نہ صرف خراب ہوں گے بلکہ کرہ ارض میں تہذیبوں اور ادیان کے پیروکاروں کے درمیان نفرتیں بوکر سامراجی قوتوں کے استحصالی ہتھکنڈوں کو تحفظ فراہم کرنے والے کرداروں کو مزید کھل کھیلنے کے مواقع ملیں گے۔ سویڈن کے حالیہ واقعہ میں ایک غیرمسلم عراقی تارک وطن ملوث ہے، بالفرض اگر اس کے احتجاج کا مقصد ان شدت پسند مسلم جتھوں یا داعش کے گھنائونے جرائم پر مہذب دنیا کی خاموشی پر ردعمل کا مظاہرہ کرنا تھا تو اسے داعش وغیرہ کا جھنڈا یا ان کے لئے شناختی اہمیت رکھنے والی کوئی چیز نذر آتش کرنی چاہئے تھی۔ ثانیاً یہ کہ اس تارک وطن نے یہ بات کتنی آسانی سے فراموش کردی کہ داعش کی بربریت کے خلاف عراق میں مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں ہی نہیں بلکہ دیگر ادیان کے پیروکاروں میں بھی وسیع البنیاد مزاحمتی اتحاد قائم ہوا اور اس اتحاد نے اپنی طویل جدوجہد سے عراقی سرزمین سے اس فتنے کا خاتمہ کیا، اسی طرح یہ امر بھی دوچند ہے کہ داعش کے سفاک جنگجوئوں نے صرف یزدی، مسیحوں اور دیگر غیر مسلم ادیان کے پیروکاروں پر مظالم نہیں ڈھائے بلکہ ان سفاک درندوں نے اپنی فہم اور کارروائیوں سے اختلاف کرنے والے مقامی مسلمانوں کو مرتد قرار دے کر ان کے خاندانوں کی عفت مآب بیٹیوں کے ساتھ بھی انسانیت سوز سلوک کیا، انتہا پسند مسلم جتھوں نے مظالم ڈھاتے وقت مسلم و غیرمسلم کی تمیز نہیں کی، دوسری جانب اس سفاک گروہ کے خلاف بننے والے بین المقاصد اتحاد کی مزاحمتی تحریک کے دوران جہاں ایک طرف درندوں کو منطقی انجام تک پہنچایا وہیں دہشت گردی سے متاثر ہونے والے مسلم و غیر مسلم خاندانوں کا مقامی سماجی وحدت پر اعتماد بھی بحال کیا گیا، اس طور اگر یہ کہا جائے کہ عراقی تارک وطن کا ردعمل کسی منظم منصوبے کا حصہ ہے اور منصوبہ ساز وہ قوتیں ہیں جو ایک عرصہ سے تہذیبوں اور ادیان کے پیروکاروں کے درمیان تصادم کی راہ ہموار کررہی ہیں تو یہ غلط نہ ہوگا۔ کسی بھی مہذب شخص کے لئے سویڈن کے حکام کا یہ موقف قابل قبول نہیں کہ چونکہ ہمارا ملک شخصی آزادی اور فہمی اظہار پر قدغن نہیں لگاتا اس لئے یہ ”سانحہ” آزادی اظہار کا حصہ ہے جرم نہیں، یہ موقف محض ایک ڈھکوسلہ ہے فقط یہی نہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ سویڈن کی حکومت کرہ ارض میں انتہا پسندی کو رواج دے کر تصادم کی راہیں ہموار کرنے والی قوتوں کی آلہ کار ہے تو یہ بھی اپنی جگہ درست موقف ہی ہوگا، سویڈن کے حالیہ واقعہ پر مسلم دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح پاکستان میں پایا جانے والا رنج و غم اور غصہ فطری ہے، جمعہ 7 جولائی کو اپنے رنج و غم کو احتجاج کی شکل دینے والوں کو یہ امر بطور خاص مدنظر رکھنا ہوگا کہ ملک گیر احتجاج کے دوران غیرمسلم مذہبی برادریوں کی نجی و مذہبی املاک کو کوئی نقصان نہ پہنچنے پائے، حکومت کا بھی فرض ہے وہ ایک کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی کے جاری کردہ اعلامیہ کا بلاتاخیر نوٹس لیتے ہوئے اس امر کو یقینی بنائے کہ اس تنظیم کے سہولت کار اور ہمدرد ملک گیر احتجاج کے کسی لمحے کا فائدہ اٹھاکر ایسی مذموم کارروائی نہ کرنے پائیں جس سے پرامن احتجاج کرنے والوں اور پاکستان کا چہرہ مسخ ہو۔ یہاں ہم مختلف الخیال مسلم مکاتب فکر کے صائب الرائے افراد سے بھی یہ درخواست کریں گے کہ وہ مسلم معاشروں میں بڑھتی ہوئی انتہاء پسندی اور عسکریت پسندی پر ڈھیلی ڈھالی بیان بازی کی بجائے حقیقت پسندانہ موقف اختیار کریں۔ ہم اسے بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ آج پاکستان میں ایسے طبقات موجود ہیں جو داعش، طالبان اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کی کارروائیوں کو جہاد اسلامی کے طور پر پیش کرنے کے غیرذمہ دارانہ طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ افسوس کہ اعتدال پسند حلقے اور سیاسی جماعتیں بھی انتہاء پسندوں کے ان سہولت کاروں سے خوفزدہ ہوکر اپنے حصے کا سچ بولنے سے گریزاں ہیں، یہ صورتحال نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ اگر اصلاح احوال کی سنجیدہ کوششیں نہ کی گئیں تو انتہاء پسندوں کو مزید کھل کھیلنے کا موقع ملے گا، ہم افسوس کے ساتھ اس امر کی جانب توجہ دلانا ضروری خیال کرتے ہیں کہ پاکستان میں بھی حالیہ عرصہ میں چند ایسے واقعات ہوئے جن سے یہ تاثر ابھرا کہ غیرمسلم مذہبی برادریوں کے ساتھ ساتھ خود مسلمانوں کے اقلیتی طبقات بھی غیرمحفوظ ہیں۔ ستم یہ ہے کہ کسی بھی صوبائی حکومت نے اپنی حدود میں ہونے والے ناپسندیدہ واقعات کا نوٹس نہیں لیا جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں قانون کی حاکمیت کی مسلمہ طاقت پر کسی قسم کا سمجھوتہ کیا جائے نہ کسی گروہ سے ایسی ہمدردی جتائی جائے جو اسے کھل کھیلنے میں مدد فراہم کرے۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ صرف پاکستان ہی نہیں مسلم دنیا کے دیگر ممالک کو اپنے ہاں غیر مسلم مذہبی برادریوں کے سیاسی، مذہبی، معاشی اور سماجی حقوق کے تحفظ و فراہمی میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھنی چاہئے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ جمعہ7 جولائی کو یوم تقدیس قرآن مناتے ہوئے اسلامیان پاکستان کے ہاتھ اور زبان دونوں سے ایسا کچھ نہ سرد ہو کہ جس سے پرامن احتجاج کا تاثر مجروح ہو نیز یہ کہ حکومت کو چاہئے کہ اسلامی کانفرنس اور دوسری عالمی تنظیموں کے تعاون سے اقوام متحدہ سے عالمی قانون سازی کے لئے رجوع کرے تاکہ عالمی برادری مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوسکے۔

مزید پڑھیں:  چاندپر قدم