مشرقیات

ہائے، زندگی کتنی بھاری سے بھاری ہو چلی ہے ـ اولاد کے بوجھ تو اپنی تھاں پرـ مگر نہ پوچھیو ، اب تو اپنی جان بھی خود واسطے درد سر ہےـ بھیا! اب وہ بدلتے لمحے کہاں جب دانت کاٹی روٹی کا رواج تھاـ ہاں ، اسی الفت میں تو ایک نوالہ خود اور ایک نوالہ دوسرے کے منہ میں ڈال کر شکر کے الفاظ کہے جاتے تھےـ اب تو نہ جانے کون سا اودھم مچا ہوا ہےـ نہ صبر ہے، نہ شکر ہے، نہ احساس ہے، نہ پاس ہے اور پھر کیا بچے، کیا جوان اور کیا بوڑھے، پورا پورا دن ہاتھوں میں موبائل تھامے ، پتہ نہیں کس طرح ذندگی کے سنہرے اور محبت بھرے لمحات کا خون کر چلے ہیںـ زندگی پر حاصل محنت اور مشقت کا رواج تو آہستہ آہستہ ماضی کا حصہ بن چلا ہےـ پہلے تو جو بچے تعلیم میں تھوڑے بہت ڈھیلے ہوتے ان کو والدین ہمت کر کے کسی ہنر کی جانب منتقل کر دیتے اور پھر یوں ان کے ہنر کی بناء ان کی زندگی آسان ہو چلی جاتیـ آج اگر آپ ارد گرد دیکھیں تو نہ جانے کتنے بچے یوں ہی گلیوں اور چوراہوں پر مارے مارے پھر رہے ہیںـ اب معاشرہ اگر ترقی کرے بھی تو کیسےـ ماں، باپ نہ جانے کیوں بری الزمہ ہو چلے ہیںـ پتہ نہیں اگلی صدی کیسی ہوگی ـ لیکن جو اب آسمان پر دیکھ رہا ہے وہ کچھ اچھا نہیںـ
دوران تدریس ہم نے پڑھا تھا کہ "زندگی پھولوں کی سیج نہیں”ـ یقین جانئیے! ایسا ہی ہے ـ زندگی میں انتہائی مختصر لمحات ، آپ کے ہیںـ اس کے بعد تو پھر تا دم مرگ خدمت کا علم تھامے، چل سو چل ہےـ کتنے بے درد لوگ ایسے ہیں جو ایسی ہمت اور خدمت بھری زندگی کے تسلسل میں روکاوٹیں کھڑی کر دیتے ہیں اور یوں زندگی کا ایک قیمتی حصہ نہ صرف ضائع ہو جاتا ہے بلکہ ایسے کشیدگی بھرے لمحات انسان کو وقت سے پہلے بوڑھا کر دیتے ہیںـاگر آپ ایسے لوگوں کی زندگیوں کا جو دوسروں کے لئے اجیرن کا باعث بنتی ہیںـ گہری سوچ سے دیکھیں
تو ان کے معاشرہ میں بھی کوئی عزت اور مرتبہ نہیں ہوتا وہ ایک فرضی خول میں خود کو لپیٹے سیسکیوں بھری زندگی گزار رہے ہوتے ہیںـ بلکہ وہ دوسروں کے لئے لگائی جانے والی آگ میں خود جل رہے ہوتے ہیںـ
نہ جانے کیوں ہمارے معاشرہ میں یہ رواج طول پکڑے ہے کہ ہم نہ تو حقائق کو دیکھتے ہیں اور نہ ہی بنیاد پر توجہ دے پاتے ہیںـ بن دیکھے، بن سوچے ، بس جس سے جو کہا، جیسے کہا، کیا کہا؟ نہ آؤ دیکھتے ہیں نہ ہی تاؤ دیکھتے ہیںـ سنی سنائی باتوں کو پھیلا کر پورے معاشرتی نظام کی بیخ کنی کر دیتے ہیںـ پرانے زمانے میں بادشاہوں نے اپنے درباریوں سے اسی طرز کی خودساختہ اور من گھڑت روایات کو رعایا میں پھیلانے کا کام لیتے تھےـ یہ درباری صرف جھوٹ موٹ کو نہیں پھیلاتے تھے بلکہ وہ چائے خانوں اور عام بیٹھک پر وزیروں اور مختلف ریاستوں کے بادشاہوں کے من گھڑت قصیدوں کی بھر مار کر دیتے اور وہ کچھ بول جاتے جو ان کے قریب تک سے بھی نہ ہوتاـ
یہ کناروں سے کھیلنے والے
ڈوب جائیں تو کیا تماشا ہوـ
(ساغر صدیقی)

مزید پڑھیں:  محنت کشوں کا استحصال