جامعات میں ہراسانی کے بڑھتے واقعات کی وجہ

سوات یونیورسٹی میں طالبات اور خواتین لیکچررز کی جنسی ہراسانی کی خبریں اور بعد ازاں ویڈیوز آنے کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ نے تمام کلاس روموں میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرنے اور کلاس روموں کے دروازوں میں شیشے لگانے کا کام شروع کردیا ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے یونیورسٹی میں جنسی ہراسانی روکنے کے اقدامات کے طور پر اختیار کردہ طرزعمل مناسب ہے لیکن جو الزامات لگتے رہے ہیں ان سے صرف نظر کرنے کی قیمت پر محولہ اقدامات کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ یونیورسٹی میں جنسی ہرا سانی کی خبروں اور پھر یونیورسٹی میں نازیبا حرکات کی ویڈیوز وائرل ہونے کے بعد یونیورسٹی کی کلاس روموں میں کیمروں کی تنصیب کا کام شروع کردیا گیا۔ ساتھ میں کلاس روموں کے دروازوں میں شیشے لگانے کا کام بھی شروع کردیا گیا۔ سوات یونیورسٹی کی ایک طالبہ نے نام شائع نہ کرنے کی شرط پر یونیورسٹی میںجنسی ہراسانی کی تصدیق کی اور کہا کہ جب تک کالج ٹیچرز کے پاس انٹرنل مارکس کا آپشن موجود ہوگا، تو اُس وقت کسی بھی کالج اور یونیورسٹی میں جنسی ہراسانی کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ ہائر ایجوکیشن اتھارٹی سے ان کا مطالبہ تھا کہ درسگاہوں میں انٹرنل مارکس کا خاتمہ کیا جائے اور اس کو میٹرک یا انٹر میڈیٹ بورڈ کی طرح سیکرسی میں کیا جائے۔ملکی جامعات اور کالجوں میں بغیر تیاری و انتظامات یہاں تک کہ بی ایس نظام تعلیم سے ناواقف اساتذہ کے ساتھ اس تجربے کا جوآغاز کیاگیا تھا اس کا طالب علموں کی تعلیم اور مستقبل پر اثرات اپنی جگہ بدقسمتی سے اساتذہ جیسے قابل احترام طبقے میں موجود کالی بھیڑوں نے اسے جسطرح صنفی دست درازی اور ہوس کی تسکین کے موقع کے طور پر استعمال کیا وہ شرمناک ہے اس سے بھی شرمناک امر یہ ہے کہ جنسی ہراسانی کے واقعات سامنے آنے کے بعد بھی ملوث عناصر کے خلاف ایسی کارروائی نہیں ہو پاتی کہ دوسرے عبرت پکڑیں انٹرنل مارکس کا نظام اس سابقہ کے ہم وزن وہم پلہ فعل میں تبدیل ہوگیا ہے یہ تو مخلوط تعلیم کی جامعات کے اساتذہ کے کردار کی ایک جھلک تھی دوسری جانب جامعات میں جوڑیاں بنانے اور غیر اخلاقی سرگرمیوں کا ارتکاب بھی کوئی کہانی نہیں معاشرے کے انحطاط کی جو جھلک طلبہ اور طالبات کی طرف سے دکھائی جاتی ہے وہ کسی بھی مغربی اور لادین ملک کے مادر پدر آزاد معاشرے کی جھلک سے کم نہیں اس سنگین صورتحال کو معاشرتی قانونی اخلاقی طور پر دیکھنے کے ساتھ ساتھ جامعات میں ان عوامل اور اختیارات کا بھی جلد سے جلد جائزہ لینے کی ضرورت ہے جن کے استعمال سے ہراسانی کا باب کھل جاتا ہے ۔

مزید پڑھیں:  محنت ہی حل ہے