جامعات کا مالی بحران اور حکومت کی عدم توجہی

گزشتہ چند برسوں سے ملک کی جامعات خصوصاً خیبر پختونخوا کی جامعات مسلسل مالی بحران کا سامنا کررہی ہیں ۔ خیبر پختونخوا میں اس وقت 32 سرکاری جامعات ہیں جن میں دو لاکھ سے زائد طلبا زیر تعلیم ہیں ۔جامعات 2017تک مالی لحاظ سے خود کفیل تھیں اور کبھی بھی جامعات نے صوبائی حکومت سے مالی امداد کے لیے رجوع نہیں کیا تھا لیکن تحریک انصاف کی گزشتہ دونوں صوبائی حکومتوں نے جامعات کے معاملات میں ضرورت سے زیادہ داخل اندازی شروع کردی جس کے بہت سارے محرکات ہیں اس کی ابتدا ء مراد سعید کی غیر قانونی ڈگری جاری نہ کرنے سے شروع ہوتی ہے چونکہ اس سے پہلے جامعات مکمل خود مختار ہوا کرتی تھیں اس لیے کسی سیاسی دباؤ کو برداشت کرنا ان کے لیے بہت آسان تھا مگر جب ایک اسمبلی کے ممبر کو قانون کو بالائے طاق رکھ کر فیل پرچوں میں پاس کرکے ڈگری جاری کرنے کا کہا گیا تو اس وقت کی یونیورسٹی انتظامیہ نے صاف انکار کیا جس کے بعد صوبائی حکومت نے یونیورسٹیوں پر تسلط جمانے کے لیے کمر کس لی رہی سہی کسر اس وقت پوری ہوگئی جب وفاق میں بھی تحریک انصاف کی حکومت آگئی اور مراد سعید کی وجہ سے یہاں وزیر اعلیٰ مقرر کیا گیا نیا وائس چانسلر تعینات کروا کراس سے موصوف وزیر کو رات کے اندھیرے میں ڈگری دے دی گئی سیول سوسائٹی اور یونیورسٹی کے تمام حلقوں نے اس پر احتجاج کیا مگر ان کی نہیں سنی گئی چونکہ یونیورسٹی نے گستاخی کی تھی اس لیے یونیورسٹیوں کی خود مختاری ختم کرکے ان کی تباہی کا راستہ کھول دیا گیا ایک لاڈلے کی انا کو تسکین پہنچانے کے لیے صوبہ کے اعلیٰ تعلیم کو داؤ پر لگا دیا گیا یونیورسٹیوں نے گزشتہ چند برسوں تک تو کسی نہ کسی طرح گزارا کر لیا مگر گزشتہ دو برسوں سے یونیورسٹیاں شدید مالی بحران کا شکار ہیں جس کی وجہ سے یونیورسٹیوں میں تنخواہیں دینے کے پیسے نہیں ہوتے یونیورسٹیوں میں تمام معاملات فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے بند پڑے ہیں ۔تحقیق کے لیے کسی بھی یونیورسٹی کے پاس ایک روپیہ نہیں ہے ۔ پنجاب ، سندھ اور بلوچستان کی صوبائی حکومتیں اپنی یونیورسٹیوں کو میچنگ گرانٹس دیتی ہیں یعنی جتنے پیسے ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان دیتا ہے اتنے ہی پیسے وہاں کی صوبائی حکومتیں دیتی ہیں جس کی وجہ سے یونیورسٹیاں اپنے مالی اخراجات پوری کرتی ہیں پھر اٹھارویں ترمیم کے بعد پنجاب اور سندھ میں صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن بنائے گئے اور خیبر پختونخوا میں اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں کی گئی اور تمام معاملات اپنے وزیر کے ذریعے چلاتے رہے یوں ایک فرد واحد کے صاحب اختیار ہونے سے معاملات بہتر ہونے کے بجائے خراب ہوتے چلے گئے ۔ خیبر پختونخوا کی32 میں سے تیرہ یونیورسٹیوں کو ہائر ایجویشن کمیشن نے صرف دو کروڑ روپے فی یونیورسٹی دینے کا اعلان اس برس کیا ہے اس سے پہلے وہ اس سے بھی محروم تھیں آپ اندازہ لگائیں کہ ایک یونیورسٹی جس کی صرف ملازمین کی تنخواہ ہی ڈھائی کروڑ سے زیا دہ ہو اور اآپ سے پورے سال کے لیے دو کروڑ روپے دیں اور اسے پابند بھی کریں کہ اس میں سے پندرہ فیصد آپ نے طالب علموں کو اسکالرشپس کی مد بھی دینے ہیں تو کیسے یہ نئی یونیورسٹیاں اپنے معاملات چلائیں گی ۔2007 کاہائر ایجوکیشن کمیشن اسلام آباد کا بجٹ موجودہ بجٹ سے زیادہ تھا ۔مگر اس کے بعد حکومتوں کی ترجیحات بدل گئیں حکومتوں نے نئی یونیورسٹیاں بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جتنی یونیورسٹیاں ساٹھ سال میں بنی تھیں ان سے دوگنی یونیورسٹیاں بنائیں چن چن کر اپنے ورکر ان یونیورسٹیوں میں بھرتی کروائے یہاں تک کے چند ایک یونیورسٹیوں میں طلبا کی تعداد سینکڑوں میں تھی اور وہاں ملازمین کی تعداد ہزاروں میں چلی گئی تھی مگر ان یونیورسٹیوں کو چلانے کے لیے وسائل دینے کا انتظام نہیں کیا گیا یوں ہر شہر میں یونیورسٹیاں بن گئیں اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کی فنڈنگ کم ہوتی چلی گئی شروع میں یونیورسٹیوں نے اس کا حل یہ نکالا کہ طلبا کی فیسوں میں اضافہ کردیا جائے اور یہ اضافہ اتنا زیادہ ہوگیا ہے کہ دنیا میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی دو ہزار سات میں یونیورسٹی طالب علم کی سالانہ فیس چھ ہزار وپے تھی جو اب بڑھ کر ایک لاکھ سے زیادہ ہوچکی ہے لیکن طالب علموں سے لی جانے والی فیسوں سے یونیورسٹیوں کے بجٹ کا تیس فیصد بھی پورا نہیں ہوتا جس کی وجہ سے یونیورسٹیوں کو حکومتی گرانٹس کی ضرورت پڑتی ہے حکومتی گرانٹس دن بدن کم ہورہی ہیں اور یونیورسٹیوں کے مالی مسائل بڑھتے جارہے ہیں ۔ پاکستان میں یونیورسٹی کے اساتذہ کو جو تنخواہ دی جاتی ہے وہ پوری دنیامیں سب سے کم ہے یورپ اور امریکہ جاپان کے یونیورسٹی اساتذہ پاکستانی اساتذہ کے مقابلے سو گنا سے زیادہ تنخواہ لیتے ہیں اور ان کو ریسرچ گرانٹس کی صورت میں اربوں روپے دئیے جاتے ہیں جبکہ یہاں صورتحال یہ ہے کہ بی پی ایس کی تنخواہ معہ دیگر مراعات کے جو سرکاری ملازمین کو ملتی وہ یونیورسٹی کے ملازمین کو نہیں ملتی حکومت نے پورے پاکستان کے ملازمین کوDRA دیا کئی مرتبہ دیا مگر یونیورسٹی ملازمین کو وہ نہیں دیا گیا اس لیے آج ایک پرائمری سکول کے ٹیچر کی تنخواہ اسی گریڈ کے یونیورسٹی ٹیچر سے کہیں زیادہ ہے ۔اس سے یونیورسٹی کے اساتذہ میں بے دلی کا پیدا ہونا لازمی امر ہے اس لیے کے مجودہ مہنگائی کے دور میں جو کم ترین مالی مراعات پاکستان کے دوسرے شعبوں میں کام کرنے والے ملازمین کو حاصل ہیں وہ ان کو نہیں مل رہے حالانکہ یہ سب اساتذہ معاشرے کا کریم ہیں یہ تمام پاکستان کے دیگر ملازمین سے زیادہ تعلیم یافتہ اور فعال طبقہ ہے یونیورسٹیوں میں بے شمار ایسے ٹیچر ہیں جنہوں نے سی ایس ایس پاس کرنے کے بعد جب ان کو یونیورسٹی ٹیچنگ کی ملازمت ملی تو انہوں نے سی ایس ایس والی جاب چھوڑ کر یونیورسٹی کو جائن کیا مگر کزشتہ چند برسوں سے یونیورسٹیوں سے بدترین برین ڈرین ہورہا ہے جس کا سبب حکومت کی غلط پالیسیاں ہیں ۔ دنیا بھر میں تعلیم اور صحت کے شعبہ میں حکومتیں سرمایہ کاری کرتی ہیں تاکہ ان کو پڑھے لکھے اور صحت مند ورکر ملیں مگر ہمارے ہاں گنگا الٹی بہہ رہی ہے حکومت کو یونیورسٹیوں کے مالی صورتحال بہتر کرنے کی طرف فوری توجہ دینی چائیے اور دیگر غیر ضروری کاموں سے پیسے نکال کر یونیورسٹیوں کودینا چائیں اس لیے کہ پاکستان کا مستقبل ان تعلیمی اداروں سے وابستہ ہے یہ ادارے خراب ہوگئے تو آپ اندازہ لگائیں کہ مستقبل میں باقی اداروں کو ورک فورس کون مہیاکرے گا ۔دنیا ان قابل لوگوں کی قدر کرتی ہے ان کو اپنے ملکوں میں بسانے کے لیے مراعات دیتی ہیں ایسا نہ ہو کہ یہ تمام قابل لوگ جن پر حکومت پاکستان نے بہت زیادہ خرچہ کیا ہے وہ دلبرداشتہ ہوکر کینیڈااور مشرقی وسطی کے ممالک کی طرف جائیں اس لیے کہ جس طرح انہیں ہر ماہ تنخواہ کے لیے دس دس دن انتظار پر مجبور کیا جاتا ہے حکومت کے بجٹ میں اعلان کردہ اضافہ کہ یہ بی پی ایس کے ملازمین کو ملے گا وہ دنہیں دیا جاتا تو اس کا انجام کیا ہوگا۔ ان یونیورسٹیوں میں وہ ہزاروں پی ایچ ڈی اساتذہ بھی ہیں جنہوں نے دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں سے پی ایچ ڈی اور پوسٹ ڈاکٹریٹ کی ہوئی ہے ۔ان پر حکومت کے اربوں روپے خرچ ہوئے ہیں لیکن آج یہ حال ہے کہ وہ بروقت سکول میں پڑھنے والے اپنے بچوں کی فیسیں ادا نہیں کرپارہے جبکہ ماسٹر سیکنڈ ڈویژن میں پاس کرنے والے صوبائی انتظامی ملازمین یونیورسٹی کے پروفیسر کی تنخواہ سے زیادہ صرف الاونس لیتے ہیں ان کو قیمتی گاڑیاں دی گئی ہیں پیڑول کی مد میں ان کو ہزاروں روپے دئیے جاتے ہیں ان کو سال میںکئی مرتبہ بونس بھی دئیے جاتے ہیں جبکہ ان کو پڑھانے والوں کو اپنی تنخواہ کے لیے خوار کیا جارہا ہے ۔وسائل کی منصفانہ تقسیم اور تنخواہوں اور مراعات میں تفاوت کو فوراً ختم کرکے ضروریات کا تجزیہ کرکے سب کے لیے یکساں اجرت کا نظام لایا جائے اور ترجیح علم اور قابلیت کی بنیاد پر دی جائے جیسے تمام دنیا میں دی جاتی ہے ورنہ انجام پھر یہ ہوگا کہ سکول کالج اور یونیورسٹی کا استاد پولیس ،کسٹم، ایکسائز، پٹوار میں گریڈ گیارہ میں بھرتی ہونے کوترجیح دے گا وہ لیکچرر بھرتی ہونے میں کوئی دلچسپی نہیں لے گا۔چونکہ گزشتہ چند برسوں سے مافیاز پرائیویٹ یونیورسٹیاں بنا رہی ہیں اور حالیہ اسمبلی میں جن پچاس سے زیادہ پرائیویٹ یونیورسٹیوں کا بل منظور ہوا ہے کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ دیگر پاکستانی اداروں کی طرح ان سرکاری یونیورسٹیوں کو منصوبہ بندی اور حکمت عملی کے تحت تباہ کیا جارہا ہے اگر ایسا ہے تو پھر جو لوگ اس سلسلے میں ان کا آلہ کار بن رہے ہیں تاریخ انہیں معاف نہیں کرے گی اس لیے کہ یہ اساتذہ لکھنے اور محفوظ کرنے کا ہنر جانتے ہیں یہ پی آئی اے ، سٹیل مل ، پی ٹی ڈی سی ،ریلوے کے ورکر نہیں ہیں کہ اس کو قسمت کا لکھا سمجھ کر چپ رہیں ۔

مزید پڑھیں:  حکومت کیلئے کام مت دیکھیں