اسلامی ممالک کی اجتماعی بے حسی

سعودی عرب کے شہر ریاض میں غزہ کے حوالے سے منعقد ہونے والے اجلاس کے اختتام پر اسلامی تعاون تنظیم کے57 رکن ممالک کے رہنما اسرائیل کے خلاف کسی عملی اقدام پر متفق نہ ہونا عالم ا سلام کی وہ بے حسی ہے جو اسلام پسندوں کی حوصلہ شکنی اور اسرائیل کی حوصلہ افزائی کے مترادف امر ہے۔ اجلاس میں اسرائیل کے خلاف مختلف نوعیت کے اقدامات کے لیے ہر قسم کی تجاویز پیش کی گئی تھیں لیکن افسوسناک حد تک کسی بھی ٹھوس تجویز اور ردعمل پر اتفاق نہ ہوسکا ۔ایران کی طرف سے پیش کی جانے والی سخت ترین تجویز جس میں تمام رکن ممالک سے اسرائیلی فوج کو دہشت گرد قرار دینے کے لیے کہا گیا تھا، سے لیکر شام کے صدر بشار الاسد کی طرف سے پیش کی جانے والی تجویز جس میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا مشورہ دیا گیا تھاکسی بھی تجویز کواختیار نہیں کیا جا سکا یہ اجلاس جسے آخری لمحات میں عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم کے رہنمائوں کے مشترکہ اجلاس کے طور پر متعارف کرایا گیا، ان مسلم اور عرب ممالک کے درمیان مفادات کے گہرے ٹکرا ئوکی واضح عکاسی تھی جو عام طور پر دنیا کی تمام مسلم آبادی کی نمائندہ تنظیم کے طور پر خود کو متحد دکھاتے تو ہیں لیکن عملی اقدمات کے وقت ہر ایک کی الگ الگ ترجیحات ہوتی ہیں۔ لبنان اور الجزائر نے عرب لیگ میں اسرائیل کو تیل کی فراہمی روک دینے کی تجویز دی تھی جس کی متحدہ عرب امارات اور بحرین نے مخالفت کی تھی۔دوسری جانب اسرائیل کی جارحیت کے خاتمے کے لئے سلامتی کونسل میں ایک قرارداد کی منظوری۔اب تک، روس اور برازیل جیسے ممالک کی طرف سے تجویز کردہ بہت ہلکی قراردادوں، جن میں اسرائیل سے نرم، سفارتی زبان میں جنگ بندی یا حتی کہ انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کا اعلان کرنے کے لیے کہا گیا ہے، کو بھی امریکہ نے مسترد کر دیا ہے۔دریں اثنا، اگرچہ امریکہ کا اصرار ہے کہ اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور شہریوں کی ہلاکت پر تشویش ہے، لیکن عملی طور پر حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد اب تک ایک بڑی تعداد میں غزہ میں عام شہریوں کی ہلاکت کے باوجود غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائی کی واشنگٹن نے مخالفت نہیں کی۔اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ممالک بلاشبہ اسرائیل پر دبا ڈالنے کی کافی طاقت رکھتے ہیں۔ لیکن ان ممالک کے درمیان گہری خلیج نے ان ممالک کو کبھی بھی اس طاقت سے فائدہ اٹھانے کے قابل نہیں بنایا ہے۔اس سے بڑھ کر افسوسناک صورتحال کیا ہو گی کہ غزہ پر اسرائیلی بمباری کے 36روز بعد بھی دنیا بھر کی تمام تنظیمیں ، اتحاد اور تمام بڑے ممالک اسرائیل کو جنگ بندی پر مجبور نہیں کرسکے ہیں جبکہ مسلمان ممالک کا اتحاد بھی صرف مطالبہ اور مذمت تک ہی محدود رہا ہے۔ معاشی طور پر دنیا میں انتہائی اہم مقام حاصل کرنیوالا اسرائیل اس وقت عرب ممالک کی ضرورت بن چکا ہے ۔ عرب دنیا کی بڑی طاقتوں نے اسرائیل کیساتھ سفارتی اور معاشی تعلقات گہرے کرلئے ہیں ایسے میں کوئی بھی فلسطین کیلئے اپنی معیشت قربان کرنے کو تیار نہیں ہے۔ دوسری جانب غزہ اور فلسطین میں ہونیوالے اسرائیلی ظلم کو دنیا کے سامنے لانے میں سوشل میڈیا کا کردار سب سے کلیدی رہا ہے اور اسی سوشل میڈیا کی وجہ سے امریکہ میں بھی آوازیں بلند ہورہی ہیں جبکہ یورپ سمیت تمام مغربی ممالک کے عوام اسرائیل کی حمایت میں کھڑے اپنے حکمرانوں پر دبائو لا رہے ہیں۔اس سے بڑھ کر بے حمیتی کی مثال کیا ہو گی کہ اسلامی ممالک اور عرب لیگ کے ممالک کو اپنے مفادات خون مسلم سے زیادہ عزیز ٹھہر گئے ہیں اور مشترکہ اجلاس میں اس طرح کے جذبات کا بھی اظہار کرنے کی ہمت نہیں کی گئی جس کا مظاہرہ بعض غیرمسلم ممالک کے حکام اور عوام کی جانب سے سامنے آرہا ہے ۔ جب مسلمانوں کی اجتماعی بے حسی کا یہ عالم ہو تو پھر اس امر کا انتظار کیا جانا چاہئے کہ قدرت روئے زمین پرکوئی ایسی قوم پیدا کرکے جو ان کے دین کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دے اس طرح کی کئی مثالیں قرآن عظیم میں بیان کی گئی ہیں اور اس قانون قدرت کا بھی بیان ہے کہ قدرت کس طرح قوموں کونیست و نابود او رکس طرح سے ان کا احیاء کیا کرتا ہے غزہ کے مٹھی بھر مجاہدین نے قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ کرکے ثابت کیا کہ اسرائیل ناقابل چیلنج ملک نہیں اگر اسلامی ممالک کی تنظیم اور عرب لیگ کے ممالک تھوڑی ہی حمیت اور ہمت سے کام لیتے تو نتیجہ مختلف ہوسکتا تھا آج اسی بے حسی کا ماتم کیا جائے یاپھر ہسپتالوں پر حملے اور انسانیت کے خلاف جرائم کا رونا رویا جائے اسلامی ممالک شاید غزہ کی پٹی کے مکمل انہدام و سقوط اور یہاں کے مکینوں کے نیست و نابود ہونے کے منتظر ہیں حماس نے مزاحمت کا جو چہرہ پیش کیا ہے ستاون اسلامی ممالک کی قیادت نے اس کے برعکس کردار کا مظاہرہ کیا ہے ہر دو کا کردار و عمل سامنے ہے لیکن بہرحال بہت جلد اس بات کا فیصلہ ہونا ہے اور باطل بھلے غالب ہی آجائے لیکن بالاخر باطل نے مٹنا ہے اورمٹ کر رہے گا۔

مزید پڑھیں:  اسرائیل حماس جنگ کے 200دن