نازک معاشرتی مسئلہ

قولہ مشہور ہے کہ ”چونکہ میں سوچ سکتا ہوں اس لئے میں ہوں” دعوت فکر و تدبر ایک آسمانی ہدایت بھی ہے اور انسانی ضرورت بھی ہم اکثر بیٹھے بٹھائے گھنٹوں ضائع کرتے ہیں سوشل میڈیاپر اپناوقت برباد کرتے ہیں مگر تھوڑی دیر کے لئے اگرذہن کہیں لگنے لگتا ہے تو پاس والے کہنے لگتے ہیں کہ کہاں کھو گئے ۔ اب تو غور و فکر کی ضرورت کم ہی محسوس کی جانے لگی ہے قدرت کی طرف سے جو عقل ودیعت ہوئی ہے چاہئے تو یہ کہ اسے کام میں لایا جائے کچھ لوگوں کا تو خیال ہے کہ اب دنیا انگلی کی ایک پور تک آئی ہے کسی بھی موضوع اور معاملے بارے معلومات درکار ہوں بس ایک کلک پر معلومات کا جہاں سامنے آتا ہے انٹرنیٹ کی افادیت بارے توکوئی کلام نہیں بندہ نہ چاہتے ہوئے کھیلتے کھیلتے بھی دانش اور تجربے کی کئی باتیں سیکھ لیتا ہے اور زندگی کی ایسی حقیقتوں سے باخبر ہوتا ہے کہ بعض اوقات وہ یاد رہ گئی بات رہنما ثابت ہوتی ہے خاص طور پر بعض معاشرتی حالات و واقعات بارے لوگ اپنے تجربے اور دانش کے مطابق ایک آدھ جملہ لکھ کر شیئر کرکے دوسروں کے لئے اس طرح کی صورتحال میں دوسروں کو جو مناسب راستہ دکھا رہے ہوتے ہیں وہ ذہن میں موجود ہو تو جب کبھی پالا پڑتا ہے توبجائے پریشان ہونے کے اطمینان کے ساتھ اس سے نمٹنے کی راہ سجھائی دیتی ہے گزشتہ روز ایک محفل میں بچیوں کے رشتے کے حوالے سے فکر انگیز گفتگو میں شریک ہونے کا موقع ملا مناسب لگا کہ آپ کوبھی شریک کروں ۔ دانش واقعی کسی کی میراث نہیں ہوتی اور تجربہ کا بہرحال کوئی نعم البدل نہیں دلچسپ بات یہ ہے کہ اسے ہم بالعموم خواتین کا موضوع سمجھتے ہیں لیکن ایک برادر عزیز نے کمال کی گفتگو کی۔انہوں نے اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگوں نے کبھی غور کیا ہے کہ اب پہلے کی طرح خاندان میں رشتہ کرنے کو ترجیح کیوں نہیں دی جارہی ہے اور خاندان میں شادی کا رواج کم کیوں ہوتا جارہا ہے ۔ میرے خیال میں اس کی سب سے بڑی وجہ خواتین ہیں وہ اس طرح کہ چونکہ خواتین ہی ابتدائی طور پررشتے کی تجویز پیش کرتی ہیں اور اس سے قبل انہوں نے اپنے طور پر ہوم ورک کیا ہوتا ہے کہ لڑکی اور اس کے گھر والے کیسے ہیں ان کی عادات و اطوار اور رہن سہن کیسا ہے کس مزاج کے لوگ ہیں لڑکی سلیقہ مند ہے کہ نہیں وغیرہ وغیرہ بہرحال مختصراً اب جوں جوں عزیز و اقارب میں قربت اور خلوص کاعنصر کم ہوتا جارہا ہے توں توں ایک دوسرے سے رشتے طے کرنے کا عمل بھی کم ہوتا جارہا ہے انہوں نے لڑکیوں کے والدین کو بطور خاص مشورہ دیا کہ ان کوچاہئے کہ وہ خود اپنے مفاد میںلوگوں سے اچھے برتائو کا مظاہرہ کریں اپنے خاندان اور گھر کودوسروں کے لئے قابل قبول بنائیں ایسا ہونے پر ہی ان کی صاحبزادیوں کی طرف کسی کی نظر جائے گی اگر والدین اکھڑ پن اور علیحدہ علیحدہ سے رہنے کا تاثر دیں گھل مل کر عزیز واقارب کاحال احوال نہ پوچھیں ان کی تقریبات میں پیش پیش نہ ہوں تو کسی کوکیا پڑی ہے کہ وہ ان سے رشتہ جوڑنے کا سوچے نیزوالدین کو خاص طور پر والدہ کواپنی بیٹیوں کوسلیقہ مندی سکھانے کے ساتھ ساتھ گھر گھرہستی ہی نہ سکھائیں بلکہ ان کی ایسی تربیت بھی کریں کہ وہ دوسروں کے لئے قابل قبول بھی ہوں۔ انہوں نے بڑے پتے کی بات یہ کی کہ آپ باہر والوں کو تو مصنوعیت کاشکار بنا سکتے ہیں لیکن خالہ پھوپھی بھابھی نند اور اس طرح کے دیگر قریبی رشتہ داروں سے کچھ نہیں چھپا سکتے کیونکہ آئے روز کا واسطہ پڑنا اور برسوں کا ساتھ ہوتا ہے اس کا بہتر طریقہ اپنے گھر کا ماحول پر سکون اور متوازن رکھنے میں ہے جب آپ ایسا کریں گی تبھی اس کے اثرات آپ کی بچیوں میں واضح ہوں گی بچیوں کوبلاوجہ گھر میں بند رکھنے اور لوگوں کے سامنے آنے سے ہر گز مت روکیں کونے کھدروں میں چھپنے والی لڑکیاں لاکھ اچھی ہونے کے باوجود توجہ حاصل نہیں کرپاتیں خاندان میں بچیوں کا اچھا تعارف ہو تو خاندان میں نہ سہی باہر سے بھی اچھے رشتے آسکتے ہیں بھابیاں نندوں سے آج اچھا تعلق نہیں رکھیں گی توکل جب ان کے بچے بچیاں جواں ہوں گی تو رشتے کے لئے ان کی پہلی ترجیح ان کے بچے نہیں ہوں گے خاندان سے باہر شادی ہر گز ہر گز برا نہیں لیکن دوریاں اب اتنی بڑھ چکی ہیںکہ خاندان والے اکثر ایک دوسرے سے اکتائے سے رہنے لگے ہیں پھر سو قسم کی باتیں اور گلے شکوے الگ لوگ اپنوں کی بے اعتنائی کے باعث غیروں سے رشتہ جوڑنے کو ترجیح دینے لگے ہیں او ر تو اور بدلتی دنیا میں اب مختلف برادریوں میں رشتے ہو بھی رہے ہیں اور ان کی کامیابی کی شرح بھی حوصلہ افزاء ہے بچے بچیاں خوش اور پرمسرت زندگی گزار رہے ہوتے ہیں لیکن بہرحال غیر برادری میں رشتہ کرتے وقت احتیاط اور سوچ بچار کی ضرورت ہوتی ہے پھر مختلف معاشرتی اقدار نبھانا بھی ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی البتہ خاندان والے سمجھدار اور باشعور ہوں تو نباہ آسان ہوتا ہے بات رشتے کی چلی تو پھیلتی گئی کچھ احباب نے لڑکیوں اور ان کی ماں باپ کی جانب سے وقت پر آنے والے رشتوں میں بلاوجہ کی چھا ن پھٹک سرد مہری اور انکار کی بھی مثالیں دیں جنہیںبعد میں مناسب رشتہ نہ ملنے پر کم درجے پر بھی بالاخر سمجھوتہ کرنا پڑا اور کچھ بدقسمتی سے کنواری ہی رہ گئیں۔مسائل کا سامنا تو لڑکوں کے رشتوں میں بھی ہوتا ہے مگر ہماری معاشرتی روایت یہ ہے کہ آپ لڑکے کے لئے رشتہ مانگنے جا سکتی ہیں مگر کسی کو اشارتاً بھی نہیں کہہ سکتیں کہ ان کی جواں بیٹی گھر میں بیٹھی ہیں ایسا کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے حالانکہ ایسا ہونا نہیں چاہئے اگر لڑکی کی والدہ نے کسی رشتہ دار اور دوست واحباب میں سے کسی سے بیٹی کی بات کی تو اس میں برائی کیا ہے ۔ مناسب رشتے نہ آنا پورے گھر کے لئے پریشانی کا باعث ہوتا ہے بعض خاندانوں میں والدین اپنے بیٹوں کی محض اس بناء پر شادی سے کتراتے ہیں کہ ابھی ان کی بیٹیاں بیاہی نہیں گئیں بعض خاندان بھی ایسے گھر میں رشتہ پر آمادہ نہیں ہوتے جہاں لڑکے کی بہنیں گھر بیٹھی ہوں غرض یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس پر جتنا غور کرتے جائیں ڈور الجھتی جائے گی۔کچھ لڑکیاں آئیڈیلزم کا ایسا شکار ہوتی ہیں کہ ان کے معیار پرکوئی لڑکا پورا ہی نہیں اترتا اس غلط فہمی میں جب عمر ڈھلنے لگتی ہے تو پھر دروازے پر کوئی نہیں آتا کتنی مثالیں اس موقع پردی گئیں میں دو کا تذکرہ کروں گی ایک لڑکی قبول صورت مگر تعلیمی لحاظ سے بڑی قابل خود بھی اچھی اور اچھے ماں باپ کی بیٹی تھی اس کا ایک اچھے گھرانے سے رشتہ آیا مگر لڑکی نے طلاق کاحق مانگ کر اس کی شرط رکھ دی ظاہر ہے ہمارے معاشرے میں ایسا کم ہی ممکن ہوتا ہے رشتہ واپس گیا اور بات پھیل گئی تو دوبارہ کسی نے ہمت ہی نہ کی لڑکی ملازمتوں کا اعلیٰ امتحان پاس کرکے وفاقی افسر لگ گئیں پھر سکالر شپ پر اعلیٰ تعلیم کے لئے برطانیہ گئیں اور وہاں سے فارغ التحصیل ہوتے ہوتے شادی کی عمر نکل گئی اسی طرح ایک اور خاندانی صاحب ثروت اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اتفاق سے وہ بھی وفاقی افسر لڑکی سے بھی یہی غلطی سرزد ہوئی تاخیر درتاخیر ہوتی گئی ان کو جب احساس ہوا تو ہاتھ تھامنے کے لئے کوئی تیار نہ ہوا نوجوان ڈرائیور کی شرافت نے دل موہ لیا تو ان سے شادی کی ٹھانی لڑکے کو والد کے بڑے کاروبار میں اپنا حصہ سونپا ڈرائیور کو بزنس مین بنا کر شادی کر لی اور لوگوں کی باتوں کی پرواہ نہ کی اب خوشی خوشی بس بھی رہی ہے اور بچے بھی بڑے ہو رہے ہیں یہ دو مثالیں کافی نہیں آپ اپنے ارد گردنظر دوڑائیں تو اس طرح کی کئی مثالیں سامنے آئیں گی۔ بلاشبہ رشتے آسمانوں پر بنتے ہیں مگر تدبیر کی بھی ممانعت نہیں۔ بہتر طریقہ یہ ہوسکتاہے کہ خاندان میں ہو یا خاندان سے باہر معاشرے کے لئے خود کوقابل قبول بنا کر رہا جائے ۔ عزیز واقارب سے کم از کم مراسم اتنے تو ہونے چاہئیں کہ گھر میں بیٹھی بیٹی کا ہاتھ مانگنے سے کترائیں نہیں بیٹیو ں کو تعلیم ضرور دلوائیں گھر گھر ہستی کو بھی تعلیم جتنا درجہ اور اہمیت دینا نہ بھولیں جولڑکیاں حسن اور تعلیم ہی کو کافی سمجھتی ہیں وہ اسے کافی نہ سمجھیں بلکہ خاندان میں رہنا اور رواپتی بہو کے اوصاف سے بھی واقفیت حاصل کریں کہ ضرورت پڑے تو ہاتھ ملتی رہناتو نہ پڑے۔

مزید پڑھیں:  سکول کی ہنگامی تعمیرنو کی جائے