عوام کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی کا راستہ

سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ(ن)کے قائد میاں نوازشریف نے 2017میں اپنے خلاف ہونے والے عدالتی فیصلے اور قبل ازیں اکتوبر 1999 میں اقتدار سے نکالے جانے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایک بندہ صبح وزیراعظم ہوتا ہے شام کو اسے ہائی جیکر بنادیا جاتا ہے۔ عدالتی فیصلے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 2017 میں پانچ ججز نے میرے خلاف فیصلہ دے کر اسٹیبلشمنٹ کے منصوبے پرعمل کے لئے راہ ہموار کی ان ججوں کو میرے خلاف فیصلہ دینے کی ضرورت کیا تھی؟ سیالکوٹ میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے تحریک انصاف کے لئے سیاسی میدان ہموار کرنے اور عمران خان کو اقتدار دلانے کو ملک کی تباہی کا منصوبہ قرار دیا۔ یہ بھی کہا کہ میرا دور اقتدار کم اور سزائوں کا دور زیادہ ہے۔ اقتدار سے نکالے جانے پر برہم نوازشریف اگر یہ بھی بتادیتے کہ انہیں اقتدار میں لایا کیسے گیا اورپھر ایک بار دس سالہ معاہدہ جلاوطنی اور دوسری بار علاج کے لئے جیل سے لندن جانے میں سہولت کاری کس نے کی تو زیادہ مناسب ہوتا۔ اسی طرح انہیں اسٹیبلشمنٹ سے اپنے حالیہ سمجھوتے کے سہولت کاروں بارے بھی بتانا چاہیے تھااور اس سوال کا جواب بھی دینا چاہیے تھا کہ پی ڈی ایم اور اتحادیوں کی جانب سے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے وقت اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ سمجھے جانے والے چھوٹے پارلیمانی گروپوں نے راتوں رات وفاداریاں کیسے تبدیل کرلیں؟ امر واقعہ یہ ہے کہ اس ملک کی سیاسی تاریخ میں چہروں کی تبدیلی کے عمل میں ایک وقت میں مظلومیت کی دہائیاں دینے والے دوسرے وقت میں چہروں کی تبدیلی کے عمل میں نہ صرف پرجوش کردار ادا کرتے ہیں بلکہ نئے کردار کے حق میں ان کے پاس دلائل کاانبار بھی ہوتا ہے۔ تلخ ترین حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں عوام پر اعتماد کی روایات سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی کے حصول کو ہمیشہ دوام حاصل رہا۔ میاں نوازشریف ماضی میں تین بار اقتدار سے نکالے گئے اقتدار سے محرومی کے بعد انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ان بغاوتوں کا نتیجہ بالآخر ان سمجھوتوں کی صورت میں برآمد ہوا جن کی بدولت وہ اقتدار میں آئے۔ اب بھی وہ اقتدار ساز قوتوں سے اپنے معاملات طے کرکے ملک واپس آئے اور وزارت عظمیٰ کے حصول کی دوڑ میں شامل ہوئے۔ اصولی طورپر انہیں ماضی میں کئے گئے حسنِ سلوک پر نوحہ گری اور سوالات کرنے کی بجائے عوام کو یہ بتانا چاہیے کہ ایسی کیا مجبوری ہے کہ وہ چوتھی بار بھی اسی”عطار کے لخت جگر”سے دوا لینے پر مجبور ہوئے؟ ہماری دانست میں مقتدر حلقوں کی طفیلی کے طور پر سیاسی کردار ادا کرنے اور سمجھوتے کے تحت اقتدار حاصل کرنے والوں کو شکایات کا پنڈورا باکس کھولنے سے اجتناب برتنا چاہیے۔ سیاستدان اور سیاسی جماعتیں جب خود ہی عوام کی بجائے طاقتوروں کے کھیل میں کردار اد کرنے کے لئے جمہوری عمل سے منہ موڑتے ہیں تو اقتدار کی ملازمت ختم کئے جانے پر شکوہ بھی نہیں کرنا چاہیے۔ نوازشریف اور دیگر سیاسی قائدین کو بہرصروت یہ مدنظر رکھنا چاہیے کہ ماضی کے حوالے سے جس طرح کی شکایات اور انتقامی کارروائیوں کا رونا وہ رورہے ہیں اسی طرح کی شکایات اور انتقامی کارروائیوں کی دہائی آج ایک اور سابق حکمران جماعت تحریک انصاف بھی دے رہی ہے۔ جس امر کو سیاسی قائدین مسلسل نظرانداز کررہے ہیں وہ یہ ہے کہ ہمارے سیاسی عمل اور نظام ہائے حکومت ہر دو میں عوام سے زیادہ بالادست قوتوں کی خوشنودی کو مقدم سمجھا جاتا ہے۔ خود میاں نوازشریف ماضی کی طرح آج بھی اس راہ کے مسافر ہیں جس راہ پر اسٹیبلشمنٹ کبھی انہیں اور کبھی ان کے مخالفوں کی سرپرستی کرتی رہی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سیاسی جماعتوں نے جب تک سہارے ڈھونڈنے کی سوچ کو ترک کرکے عوام کی قوت پر اعتماد کرنے کو ترجیح نہ دی اس وقت تک اس ملک میں کٹھ پتلیوں کے تماشے ہوتے رہیں گے۔ کٹھ پتلیوں کے تماشے صرف اسی صورت رک سکتے ہیں جب سیاستدان طاقتور حلقوں کے اشاروں پر چلنا چھوڑدیں گے۔ بادی النظر میں ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا کیونکہ سیاستدانوں کی اکثریت ایک وقت میں جس عمل کو عوام دشمنی کہہ رہی ہوتی ہے دوسرے وقت میں اسی طرح کی عوام دشمنی کے عمل میں خود پرجوش کردار ادا کرتی دکھائی دیتی ہے۔ موجودہ حالات میں کوئی بھی ذی شعور شخص اس امر سے انکار نہیں کرسکتا کہ نوازشریف کا سول سپرمیسی اور ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ ماضی کا حصہ ہوا ان کا تازہ بیانیہ ہمارے خلاف سازش کی ضرورت کیا تھی سے شروع ہوکر اس مفاہمت پر تمام ہوتا ہے جس سے ان کی وطن واپسی کی راہ ہموار ہوئی۔ اس لئے یہ عرض کرنا ازبس ضروری ہے کہ جناب نوازشریف ہوں یا کوئی دوسرا سیاستدان، ان سب کو یہ امر مدنظر رکھنا ہوگا کہ جب تک وہ اقتدار کو ملازمت کی بجائے عوام کے حق حکمرانی کے تابع نہیں سمجھیں گے اس وقت تک حصول اقتدار کے لئے سمجھوتوں کی سیاست کرتے رہیں گے۔ اس صورت میں انہیں شکوے شکایات سے گریز کرنا چاہیے یا پھر حقیقی معنوں میں عوام پر اعتماد کرتے ہوئے عوام کے ساتھ کھڑے ہوں۔ یہ کالم لکھ چکا تو میاں صاحب پر ” مزید”مہربانیوں کی خبر ملی اس پہ لمبا چوڑا تبصرہ کیا کیجئے فقط یہی بہت ہے کہ سہاگن پیا کی مرضی سے بنتی ہے دیکھنا یہ ہے کہ اب کی بار آنگن میں کتنے ماہ رونق میلہ رہے گا پتہ نہیں کیوں پچھلی صدی کی ساتویں دہائی کا مشہور انڈین گانا یاد آرہا ہے تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ پیش خدمت ہے ۔
” دم مارو دم مٹ جائے غم یہی بولو صبح و شام
مینوں اقتدار ویخا میرا موڈ بنے ہری کرشنا ہری رام”

مزید پڑھیں:  منرل ڈیویلپمنٹ کمپنی کا قیام