حکومتی اداروں کی بتدریج نجکاری

حکومتی پالیسی کے تحت تمام کمرشل سرکاری اداروں کی بتدریج نجکاری اور بعض اداروں کی تنظیم نو کرکے ان کے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہوئے ملکی مفادات متاثر نہیں ہونے چاہئیں جبکہ اس کی شفافیت بطور خاص یقینی بنانے کی ضرورت ہوگی۔ نوٹی فیکشن کے تحت مالی یا آپریشنل طور پر ناکام اداروں کو بیمار کمپنی ڈکلیئر کیا جائے گا، ایسے اداروں کی بحالی، تعمیر نو اور تنظیم نو کا پلان تیار کیا جائے گا،مستقبل میں حکومتی اداروں میں نئی بھرتیاں کنٹریکٹ کی بنیاد پر کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ نوٹی فکیشن کے مطابق چیف فنانشل آفیسرز، سی ای اوز، سیکرٹریز سمیت سینئر مینجمنٹ کے لئے سخت معیار لاگو ہوگاملازمت پر برقرار رکھنے یا فارغ کرنے کا فیصلہ کارکردگی کی بنیاد پر کیا جائے گا وزارت خزانہ نے نوٹی فکیشن میں کہا ہے کہ پالیسی نفاذ کے چھ ماہ کے اندر حکومتی ملکیتی اداروں کی کیٹگریز تیار کی جائیں گی، تمام حکومتی ملکیتی ادارے انٹرنل آڈٹ کا موثر طریقہ کار وضع کریں گے، نئی پالیسی پر عمل درآمد کے لئے کابینہ کمیٹی برائے حکومتی ملکیتی ادارے قائم کی جائے گی، سینٹرل مانیٹرنگ یونٹ قائم کرکے اداروں کی کارکردگی کی نگرانی کی جائے گی۔ وزارت خزانہ کے مطابق مجوزہ یونٹ سرکاری اداروں کے بزنس پلان کا تجزیہ کرکے سفارشات دے گا، سینٹرل مانیٹرنگ یونٹ میں قابل اور تجربہ کار سٹاف بھرتی کیا جائے گا، ان اداروں کے آزادانہ بورڈ آف ڈائریکٹرز کا ڈیٹا بیس تیار کیا جائے گا۔دریں اثناء آئی ایم ایف کی ایک اور شرط پوری کرنے کے لئے ایوان صدر سے چار سرکاری اداروں کو حکومتی سرپرستی سے آزاد کرنے کے آرڈیننس جاری کردیئے گئے۔آئی ایم ایف سے حکومتی اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کیلئے قانون میں ترامیم کا معاہدہ ہوا تھا۔ قانون میں ان ترامیم سے حکومتی اداروں کی کارکردگی بہتر اور شفاف ہوگی۔اس پالیسی کی تشکیل ومقاصد اور جو طریقہ کار بتائے گئے ہیں ان پر حقیقی معنوں میں عملدرآمد کے بعد ہی اس کے ثمرات سامنے آنے کا موقع آئے گا۔ مشکل امر یہ ہے کہ وطن عزیز میں حکومتی پالیسیوں کو دوام نہیں رہا ہے نجی اداروں کو قومیانے کی پالیسی اورحکومتی سرپرستی و انتظامات کے تحت کاروباری ادارے چلانے کا تجربہ جس بری طرح ناکامی کا شکار ہوا وہ پالیسی کی ناکامی کم انتظامی ناکامی زیادہ تھی اس کی بھی اصلاح ناممکن نہ تھی لیکن منظم اور ادارہ جاتی بدعنوانی اچھے خاصے اداروں کولے ڈوبی۔ ابھی جس نئی پالیسی کا اعلان کیاگیا ہے اسی سے کسی نمایاں بہتری کی اس لئے کوئی توقعات وابستہ نہیں کی جاسکتیں کہ حکومت پھر بھی انتظام کاری میں شراکت دار ہو تو مزید بدعنوانیوں اور ناجائز بھرتیوں کے دروازے کھل جاتے ہیں جس کی مثال اگر قومی فضائی کمپنی کی دی جائے کہ ایک وقت تھا کہ پی آئی اے نہ صرف خود منافع کمانے والا ادارہ تھا بلکہ اس کی انتظامی اور تکنیکی مہارت کے سہارے ایمریٹس جیسی بڑی فضائی کمپنی کھڑی ہوئی مگر خود پی آئی اے رفتہ رفتہ بدعنوانی اور بے تحاشا سیاسی و سفارشی بھرتیوں کے باعث آج بندش کے دروازے پرکھڑی نظر آتی ہے جس جس ادارے میں سیاسی و حکومتی بلاوجہ کی مداخلت کی گنجائش باقی ہو گی اس سے اب خیر کی توقع نہیں۔بنا بریں ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ان اداروں کی نجکاری پر توجہ دے اور حکومت کاروبارکرنے کی بجائے ملکی مسائل اور عوامی مشکلات دور کرنے پر توجہ مرکوز کرے جو اس کی اصل اور بنیادی ذمہ داری ہے ۔ نئی پالیسی کے تحت انٹرنل آڈٹ اور مانیٹرنگ یونٹ قائم کرکے اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کی جو تجویز دی گئی ہے معروضی حالات میں یہ لاحاصل ثابت ہوں گے اور بھاری مراعات پر نئی بھرتیوں کے دروازے کھل جائیں گے جس کا بار اٹھانے کی ان بیمار قرار دیئے گئے اداروں میں سکت نہ ہوگی۔ بہتر ہوگا کہ تجربات سے گریزکیا جائے اور بتدریج نجکاری کی طرف آتے آتے مزید نقصان اٹھانے کی بجائے ایسا طریقہ کار وضع کیا جائے کہ ان اداروں کا بوجھ حکومت سے منتقل ہو اور قومی خزانے پر ان کے خسارے کا بوجھ نہ پڑے۔ آئی ایم ایف کی تمام تر کڑی شرائط سے قطع نظربعض شرائط اور معاملات میں حکومت پر دبائو نامناسب اس لئے نہیں کہ عالمی مالیاتی ادارہ بھلے اپنے قرضوں کی وصولی ہی کے لئے سہی جو اقدامات تجویز کرتا ہے اور جو شرائط منوائی جاتی ہیں اس کامقصد ملکی خزانے پربوجھ کم کرنا ہے آئی ایم ایف کی ہر شرط کی مخالفت نہیں کی جا سکتی بلکہ ان کی توکوشش یہ نظر آتی ہے کہ بجلی اور قدرتی گیس کے بلوں میں حکومت مزید اضافہ سے گریز کرکے عوام کو مزید زیر بار لانے کا ارادہ ترک کرے نیز خسارے میں جانے والے اداروں کا بوجھ بھی حکومت پر کم ہو۔ ماہرین کی مشاورت سے ایسی پالیسیاں وضع ہونی چاہئیں جس سے سرکاری اداروں پر حکومتی عمل دخل کم سے کم ہو اور نہایت حساس اور ضروری وناگزیر اداروں کے علاوہ دیگر اداروں کے انتظام سے حکومت دستبردار ہوجائے تاکہ حکومت پر پنشن کی صورت میں ایک بڑا بوجھ بھی کم ہو اور خسارہ بھی نہ بھرنا پڑے ۔دیکھنا یہ ہے کہ جن امور کاعندیہ دیاگیا ہے اس پرعملدرآمد میں کتنی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور حکومت کس طرح اس پر حقیقی معنوں میں عملدرآمد کی سعی کرتی ہے۔

مزید پڑھیں:  گندم سکینڈل کی تحقیقات