فلسطین !!! چراغ ِ سحر جل اُٹھا بجھتے بجھتے

اسرائیل نے اپنے دفاع کے لئے آئرن ڈوم کا دفاعی ہالہ ہی نہیں بُنا تھابلکہ اس سے بھی زیادہ مضبوط اور موثر ہالہ اپنے ناقابل تسخیر ہونے اور اپنے قابل قبول اور طاقتور ہونے کا ہونے کا بُنا تھا اس کا تعلق اپنی نفسیاتی برتری اور مدمقابل کی نفسیاتی شکست سے تھا اور اس ہالے کے اوپر تقدس کی ملمع کاری بھی کی گئی تھی ۔ ہمسایہ عرب ریاستوں کو دھونس ،ترغیب اور تحریص کے ذریعے ان دونوں ہالوں کے احترام اور اس کے آگے سجدہ ریز ہونے پر مجبورکر دیا گیا تھا اور وہ یہ کہنے پر مجبور تھے کہ اسرائیل ایک حقیقت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بڑی طاقت بھی ہے امریکہ سمیت دنیا کی بااثر اور بالادست طاقتیں اس کی سرپرست ہیں اور اسے مشرق وسطیٰ کا تھانیدار بنانے کا فیصلہ کر چکی ہیں اس لئے وقت کی اس ہوا کے آگے اختلاف کا چراغ جلانے کی حکمت عملی حماقت کے سوا کچھ نہیں ۔اس نفسیاتی تاثر کے زیر اثر گزشتہ چند برسوں سے کئی عرب ریاستیں اسرائیل کے آگے ڈھیر ہوتی چلی گئیں اور کئی ایک دست بستہ اس قطار میں کھڑی ہو چکی تھی ۔چند گنے چنے ممالک ہی ایسے باقی رہ گئے تھے جو اسرائیل کا وجود تسلیم کرنے سے انکاری تھے ۔حد تو یہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی بحالی کا میدان تیزی سے ہموار ہو رہا تھا اور اس کے بعد مطلب یہ تھا کہ پیچھے پیچھے مسلمان ملکوں کا ایک بڑ اریلا بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کر لے گا ۔المیہ یہ تھا کہ اس کہانی میں فلسطینی نامی کسی مخلوق اور فلسطین نامی کسی مسئلے کا کوئی ذکر ہی نہیں تھا جیسا کہ ساٹھ ستر برس پہلے کی ایک زندہ وجاوید حقیقت ریاست فلسطین کا دنیا میں کوئی وجود ہی نہ رہا ہو اور اس نام کی کوئی قوم دنیا کے نقشے پر موجود ہی نہ رہی ہو ۔ساٹھ ستر برس پرانی تصویر میں فلسطین ایک جدید متمدن اور مہذب ریاست اور باشندوں کی سرزمین نظر آتی ہے جس نے اپنے اندر کثیر القومی اور کثیر المذہبی ثقافت کو پوری طرح سمو رکھا تھا ۔جہاں یہودی عیسائی اور مسلمان ایک دوسرے کے شانہ بشانہ فلسطین کی ترقی میں اپنا حصہ اداکررہے تھے ۔فلسطین کا نام تاریخ اور زمین سے کھرچا جا رہا تھا اور اس کی راکھ میں اگر کچھ باقی رہتا تو اسے غزہ ،مغربی کنارہ اور راملہ کہا جارہا تھا ۔باقی جو کچھ بچ رہا تھا وہ اول تا آخر اسرائیل تھا گویا یہ ساٹھ ستر برس اُبھرنے والا وجود ہی اصل حقیقت قرار پا رہا تھا ۔دنیا اس منظر نامے کو قبول کر رہی تھی کیونکہ مدعی سست گواہ چست کا معاملہ کب تک چل سکتا ہے جب عرب ریاستیں اور حکمران اسرائیل کی راہوں میں بچھے جا رہے تھے تو باقی دنیا کو فلسطینیوں کی حمایت میں سرگرمی دکھانے کی کیا ضرورت تھی ؟۔یوں فلسطین دنیا کے نقشے سے تیزی سے تحلیل ہو رہا تھا اور اسرائیل نگاہوں کو خیرہ کردینے والی حقیقت کے طور پر اُبھر رہا تھا اور اس اُبھار میں حقیقت سے زیادہ تاثر کا دخل تھا ۔فلسطین کے ہمسایوں کو یہ باور کرادیا گیا تھا کہ اب اسرائیل ہی حقیقت ہے جبکہ فلسطین ایک افسانہ ہے ۔فلسطینیوں کے پاس بچھے کھچے علاقے بھی ان کے پیروں تلے سے سرکائے جا رہے تھے ۔ایسے میں فلسطینیوں کے پاس دو ہی راستے ہی کہ وہ اس طوفان کو اپنے سروں کے اوپر سے گزرجانے دیں اور خود کو حالات کے دھارے اور رحم وکرم پر چھوڑ دیں یا پھر موت میں زندگی کا سامان تلاش کریں ۔فلسطینیوں کا فلسفۂ زندگی یہاں ان کی راہنمائی کو آگیا اور انہوں نے اس بدترین صورت حال میں موت میں زندگی کی تلاش کرنے کا راستہ تلاش کرلیا ۔اس سے پہلے کہ اسرائیل انہیں ماردیتا انہوں نے اپنی شرط پر موت کو قبول کرنے کا فیصلہ کیا اور تاریخ میں پہلی بار اسرائیل کی حفاظت کا نظام” آئرن ڈوم ”ہی توڑ پھوڑ کر نہیں رکھا بلکہ اسرائیل کے گرد تقدس اور ناقابل تسخیر ہونے کا مصنوعی دفاعی حصار بھی توڑ پھوڑ کر رکھ دیا ۔اسرائیل نے موت خوف قید وبند اور دہشت کا سار انصاب صرف فلسطینی بستیوں کیلئے تیار کیا تھا پہلی بار فلسطینیوں نے یہ نصاب اسرائیل کی جغرافیائی حدود کے اندر بھی پڑھایا اور جنگ کا دائر ہ اسرائیل کے اندر تک پھیلا دیا ۔اسرائیل کے فوجیوں کو یرغمال بنا کر انہیں یرغمال بنانے اور قید ہونے کا سبق پڑھایا ۔اسرائیل کی آبادیوں میں سائرن بجا کر اور ایمبو لینسز کے ہوٹر بجوا کر اور ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کروا کر یہ بتایا کہ یہ سب کچھ قدرت نے صرف فلسطینیوں کا مقد ر نہیں کیا بلکہ اسرائیل بھی ان حالات کا شکار ہو سکتا ہے ۔اس طرح جو عرب اور ان کے زیر اثر مسلمان ملک اپنی زراعت ،تجارت دفاعی ٹیکنالوجی ،سیاحت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کے سراب کے پیچھے یروشلم کی طرف سرپٹ بھاگ رہے تھے ٹھٹھک کر رہ گئے ۔ان کے مشرق وسطیٰ میں آگ اور دھویں کے بادلوں کو دیکھ کر رک سے گئے اور یوں دنیا کا منظر بدل گیا تاثر کا فسوں ٹوٹ گیا اور حقیقت ایک بار پھر عیاں ہو کر رہ گئی۔فلسطین کی القسام بریگیڈ کے مطابق اب تک اسرائیل کی تین سو پنتیس گاڑیوں اور ٹینکوں کو نشانہ تباہ کیا گیا ہے۔اسرائیل کے فوجی جس طرح روتے دھوتے نظر آئے اس نے ناقابل تسخیر ہونے کا تاثر اسی طرح تحلیل کر دیا جس طرح اسرائیلی فلسطین کو تحلیل کرنے پر مُصر تھے ۔اسرائیل کے خلاف حماس کے” طوفان الاقصیٰ ”آپریشن میں فلسطینیوں نے کیا کھویا کیا پایا ؟اس پر حماس کے بیرونی شعبہ کے سربراہ خالد مشعل نے انٹرنیشنل اسلامک فورم فار پارلیمنٹیرینز کے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے روشنی ڈالی ہے ۔خالد مشعل کا کہنا ہے کہ ”سات اکتوبر کو اسرائیل کے خلاف طوفان الاقصیٰ معرکے میں القدس کو اسرائیل میں ضم کرنے،غرب اُردن میں یہودی آبادکاری اور مسئلہ فلسطین کو ختم کرنے کی سازشوں کو ناکام بنا دیا ۔دشمن کی جیلوں میں پانچ ہزارسے زیادہ قیدیوں کی مشکلات ، سترہ سال کے غزہ کے محاصرے کے ذریعے غزہ کے لوگوں کو سسک سسک کر مرنے پر مجبور کیا گیا تھا ۔فلسطینی قوم کے نصب العین کو ختم کرنے کی سازش کی جا رہی تھی اور عرب ممالک کے ساتھ تعلقات بڑھا کر فلسطینی تحریک آزادی کو دبانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی تھی”۔اس کے بعد خالد مشعل آپریشن طوفان الاقصیٰ کی کامیابی کا ذکر یوں کرتے ہیں ”طوفان الاقصیٰ نے دشمن کو نفسیاتی فوجی اور انٹیلیجنس شکست دی ۔یہ شکست جلد مکمل ہوگی ۔ اگرالجزائز ،ویت نام اور افغانستان غاصب طاقتوں کے آگے جھک جاتے تو وہ کبھی آزاد نہ ہو تے۔مجاہدین اور کچھ راہنماوں کی شہادتوں کے باوجود ہماری سرنگیں اور اسلحہ محفوظ ہے”۔یوں خالد مشعل کے خیالات سے یہ اندازہ ہورہا ہے کہ جس جنگ کا آغاز حماس نے طوفان الاقصیٰ کے ذریعے کیا تھا اسرائیل اس کا اختتام اپنی طاقت اور مصنوعی تاثر اور تصور کے ذریعے کرنے میں کامیاب نہیں ہوا ۔اسرائیل نے جس مغرب کے میڈیا کی حمایت سے اس جنگ کو اسرائیل اور حماس کی جنگ اور حماس کو ایک دہشت گرد ملیشیا ء بنا کر پیش کیا تھا دنیا اس جنگ کو اب فلسطین اسرائیل جنگ کی سمجھنے لگی ہے اور برملا کہا جانے لگا ہے کہ فلسطینیوں کا مسئلہ حل کئے بنا مشرق وسطیٰ میں امن اور استحکام کا خواب تعبیر نہیں پا سکتا ۔یمن کے حوثی اور حزب اللہ نے اسرائیل کے خلاف عملی اقدامات کے ذریعے اس تاثر کو ختم کیا کہ یہ حماس اور اسرائیل کی جنگ ہے ۔حزب اللہ اور حوثیوں نے اسے کم ازکم عرب اور علاقے کی جنگ بنا نے کی صلاحیت کا اشارہ دیا ۔یہ جنگ طویل ہوتی ہے تو پھر مسلمان دنیا سے رضاکاربھی اس میں کود سکتے ہیں اور یوں جنگ کا دائرہ حماس اسرائیل سے بڑھ کر عرب بلکہ مسلمان اور اسرائیل جنگ تک وسیع ہو سکتا ہے۔اب اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی جاری اور اس جنگ بندی کا ہونا بھی یہ بتاتا ہے کہ اسرائیل برتر قانونی طاقت نہیں بلکہ وہ تنازعے کا فریق ہے اور اسے حماس یا کسی بھی فلسطینی گروپ کے ساتھ میز پرچار وناچار بیٹھنا پڑے گا۔ جنگ بندی کے نتیجے میں اسرائیلی یرغمالیوں کا گھروں کو لوٹنا اور اسرائیل کی قید سے گرفتار ہونے والے بچوں کا عالم جوانی میں آزاد فضائوں میں سانس لینا اور فلسطینیوں کا جشن منانابھی اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل ایک خوں ریز جنگ اور آتش فشانی تنازعے کا ایک کردار ہے کوئی مافوق الفطرت اور دیومالائی طاقت نہیں ۔اسرائیل کے نفسیاتی تاثر کے فلک بوس مینار کا ٹوٹ کر گرجانا ایسا نقصان ہے جس کی تلافی اب مدتوں تک نہ ہو سکے گی ۔فلسطین کے عوام نے اس جنگ میں گھروں آبادیوں کی تباہی کے ساتھ ساتھ پندرہ ہزار افراد کی قربانی دی ہے جن میں چھ ہزار معصوم بچے ہیں جو اسرائیل کی بمباری سے بن کھلے مرجھاگئے۔

مزید پڑھیں:  چاندپر قدم