خیبر پختونخوا میں سیاحت کشی

نگران وزیرسیاحت بیرسٹر فیروز جمال شاہ کاکاخیل نے کہا کہ خیبرپختونخوا نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سیاحوں اور سرمایہ کاروں کے لئے بھی پرکشش مقام ہے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ سرمایہ کاروں اور سیاحوں کو سہولیات فراہم کرنے کے لئے اقدامات کا سلسلہ جاری ہے۔ سیاحت کو ترقی دے کر صوبے کو معاشی طور پر مستحکم کیا جاسکتا ہے جبکہ دوسری جانب حقیقت یہ ہے کہ صوبائی دارالحکومت پشاور جیسے شہر میںسیاحوں کورات گزارنے کے لئے ان کی استطاعت کے مطابق ہوٹل میں رہائش حاصل کرنے کی سہولت حاصل نہیں جبکہ چترال سمیت صوبے کے بعض دیگر اضلاع جانے والے سیاحوں کوا ضافی خصوصی اجازت نامہ لینے کا پابند بنایاگیاہے جس سے ناواقف سیاحوں کو پولیس راستے میں روک کر واپس بھجواتی ہے ۔ سیاحوں کے تحفظ کے لئے اقدامات میں یقینا احتیاط کی ضرورت ہے ان کی حفاظت حکومت اور متعلقہ محکمے اور پولیس کی ذمہ داری ہے جس پر ضرور توجہ دی جانی چاہئے لیکن جن سیاحوں کے پاس باقاعدہ قانونی دستاویزات ہوں اور جس ضلع میں وہ جا رہے ہیں اگر وہاں کوئی فوری واقعہ نہ ہوا ہو نیز علاقہ بھی پرامن ہو توپھر ان کے باوجود سیاحوں کو وہاں سے جانے سے روکنے کی منطق کی سمجھ نہیں آتی۔دیکھا جائے تو ضلع چترال پورے ملک میں سب سے پرامن علاقہ ہے جہاں حال ہی میں سرحدی جھڑپوں کے ایام میں بھی ضلعی انتظامیہ ضلع کو پرامن قرار دے کر سیاحوں کو خوش آمدید کہہ چکی ہے اس کے باوجود اسے نوگو ایریا بنانے کی کیا تک بنتی ہے ۔ ان دنوں اگر سیاحوں کی ضلع جانے کی حوصلہ شکنی کی جاتی تو اس کی گنجائش تھی مگراب بھی چترال جیسا پرامن اوربھر پورسیاحتی استعداد و دلچسپی کے مقامات رکھنے والے علاقے کی سیاحت کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں صوبائی دارالحکومت پشاور میں اگرسیاحوں کے ٹھہرنے کا کوئی معقول بندوبست نہیںاور پولیس ان کو تحفظ نہیں فراہم کرسکتی اور چترال جیسے پرامن ضلع جانے کے لئے خصوصی اجازت نامہ کی ضرورت پڑتی ہے تو پھر بجا طور پر قرار دیا جاسکتا ہے کہ خیبر پختونخوا سیاحوں کے لئے پرخطر صوبہ ہے جس کی تصدیق حکومتی اقدمات سے ہوتی ہے عملی طور پر اس طرح کے تاثرات بننے کے اقدامات کرتے ہوئے صوبے میں سیاحت کے فروغ کے دعوے اور اسے پر کشش صوبہ قرار دینا مذاق سے کمنہیں پشاور کی سیاحت کرنے والے ایک سیاح کے مطابق سیاحوں کو پشاور کے صرف ان ہوٹلوں میں رہنے کی اجازت مل رہی ہے جن کا کرایہ بہت زیادہ ہے۔ ہم جیسے سیاح دو سے تین ہزار روپے سے زیادہ کا کمرہ نہیں لے سکتے مگر ہمیں آٹھ سے 10 ہزار روپے رات گزارنے کے لیے ادا کرنا پڑتے ہیںایک ہوٹل منیجر نے اس امر کی تصدیق کی کہ پولیس حکام کی جانب سے تاکید کی گئی ہے کہ غیرملکیوں کو اجازت کے بغیر کمرہ نہ دیا جائے۔ ہم اسی ہدایت پر عمل کر رہے ہیں۔ ہم اگر خلاف ورزی کریں گے تو ہمارے خلاف کارروائی ہو گی۔انہوں نے مزید بتایا کہ ہمارا کاروبار انہی سیاحوں کی وجہ سے چلتا تھا مگر اب نئی پالیسی کی وجہ سے ہمارا کام متاثر ہو رہا ہے۔خیبرپختونخوا کے ٹور گائیڈکے مطابق غیرملکیوں کے پاس ویزا اور تمام سفری دستاویزات موجود ہوتی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ پشاور چونکہ ایک قدیم شہر ہے جس کے باعث غیرملکی سیاحوں، وی لاگرز، ٹریولرز اور ریسرچرز شہر کا رخ کرتے ہیں۔ ان کے لیے اگر مشکلات پیدا کی جائیں گی تو سیاحت کا شعبہ متاثر ہو گا۔پولیس کا موقف ہے کہ پولیس کی جانب سے کسی ہوٹل کو ایسی ہدایات جاری نہیں کی گئیں اور نہ ہی کسی غیرملکی سیاح کے ٹھہرنے پر پابندی لگائی گئی ہے۔صورتحال کے تناظر میں سیاح ‘ ہوٹل منیجرٹور گائیڈ اور پولیس کے بیان سے یہ امر واضح ہے کہ خیبر پختونخوا میں سیاحوں کوکن مشکلات کا سامنا ہے حکومت کو اس بارے میں واضح پالیسی اختیار کر لینی چاہئے اور اس کے ساتھ ساتھ سیاحوں کو سہولیات کی فراہمی وتحفظ اور آزادانہ ماحول فراہم کرنے پر توجہ دی جانی چاہئے اس کے بغیر صوبے میں سیاحت کے فروغ کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔اس بارے دو رائے نہیں کہ خیبر پختونخوا بھر میں سیاحت کے بے پناہ مواقع میسر ہیں تاریخی اورمذہبی سیاحت کے مواقع کی بھی کمی نہیں صوبہ بھرمیں آثار قدیمہ کی تسلسل سے دریافتیں صوبے کی طرف سیاحوں کو مزید راغب کرنے کا باعث بن رہی ہیں صوبے کی ثقافت اور قدیم تہذیب سبھی شعبے سیاحوں کے لئے کشش کا باعث ہیں صوبے کی قدیم ثقافت ‘تاریخی مقامات اور دلکش نظاروں کے ساتھ ساتھ روایتی خوراکی اشیاء اور ان کی تیاری طرز تعمیر غرض ہر جانب دلکشی کے سامان سمیٹے سیاحوں کے منتظر ہیں ایک عرصے تک صوبہ دہشتگردی کا شکاررہنے کے باعث صوبے کی سیاحت بری طرح متاثر ہوئی بلکہ ختم ہوکر رہ گئی تھی اب جبکہ صورتحال میں بہتری آئی ہے توبجائے اس کے کہ سیاحت کے لئے معاون پالیسیاں وضع کی جائیں الٹا حکومتی پالیسیاں اور اقدامات ہی سیاحوں کے لئے مشکلات کا باعث اور مانع سیاحت بنی ہوئی ہیں جسے دور کئے بغیر صوبے میں سیاحت کے فروغ کی توقع احمقانہ ہوگی۔

مزید پڑھیں:  طوفانی بارشیں اورمتاثرین کی داد رسی