انتخابی تقطیب

ملک میں2024ء کے انتخابات کے پرامن ماحول میں انعقاد کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے نتائج کے اعلان میں ناقابل یقین تاخیر کے باعث اور میڈیا کے اپنے ذرائع سے مرتب کردہ نتائج کے اعلان اور اس بنا پر گراف بننے اور کامیابی کے تاثرات کی الیکشن کمیشن کی جانب سے نتائج کے اعلان میں سراسر نفی جیت کی شکست اورشکست کی جیت میں تبدیلی سے انتخابات کے نتائج کا مشکوک بے وقعت اور ناقابل اعتبار بن جانا ملک میں ایک نئے اور گہری سیاسی تقطیب کی ابتداء ہے جس کی ذمہ داری سیاسی جماعتوں کی بجائے الیکشن کمیشن کے کردار و عمل کے مظاہرے پرعائد ہوتی ہے سیاسی جماعتوں کی جانب سے خاص طور پر ایک بڑی سیاسی جماعت کی جانب سے رات گئے اپنے دفاتر کی لائٹ اور دروازے بند کرکے گویا ان نتائج کوبالواسطہ طور پرتسلیم کرنے کا عندیہ دیاگیا تھا حالانکہ قبل ازیں اسی جماعت کی طرف سے 2018ء سے پہلے کے انتخابات میں نصف شب کے قریب اپنی کامیابی کا اپنی جانب سے از خود ببانگ دہل اعلان کیا گیا تھا اور ان کا اندازہ درست ثابت ہوا تھا اس تناظر میں اس مرتبہ نصف شب کے بعد ان کی جانب سے خاموشی سے روانگی کو شکست تسلیم کرنے کا عندیہ قرار دیا جا سکتا ہے محولہ سیاسی جماعت کی جانب سے ایسا کیوں کیا گیا اس کی وجوہات اور پیغام کیا تھا اس سے قطع نظر ایسا کرنا ابتدائی نتائج کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کا عندیہ بہرحال ضرور قرار پاتا ہے یہ صورتحال بہرحال اپنی جگہ اصل معاملہ الیکشن کمیشن کی جانب سے بغیر کوئی ٹھوس وجہ بتائے انتخابی نتائج کے اعلان میں تاخیر تھی چیف الیکشن کمشنر کی جانب سے سخت تنبیہ کے باوجود آراوز کی جانب سے تاخیر درتاخیر کے تناظر میں دیکھا جائے تو چیف الیکشن کمشنر کی بے بسی نظر آتی ہے سمجھ سے بالاتر امر یہ ہے کہ ابتدائی نتائج کے مطابق ہارنیوالے جیت گئے اور جیتنے والے کافی ووٹوں کی برتری کے باوجود ہار گئے اس عمل کی کوئی توجیہ پیش کرنا مشکل ہے سوائے اس کے کہ میڈیا اورمتعلقہ حلقے کے امیدواروں کا مرتب کردہ نتائج شاید حقیقت پسندانہ نہ تھے تاہم دوسری جانب دیکھا جائے تو یہ کوئی پیچیدہ اور سمجھ سے بالاتر امر نہ تھا بلکہ حلقے کی پولنگ سٹیشنوں سے حاصل کردہ مصدقہ نتائج کو جمع کرنے کے بعد ہی نتائج اخذ کئے گئے ہوں گے جس میں تھوڑی بہت تبدیلی کا امکان رکھا بھی جائے تو ہزاروں ووٹوں کا فرق پھربھی ممکن نظر نہیں آتا۔ بنا بریں جملہ معاملات کی خرابی و غیر یقینی کی جڑ الیکشن کمیشن کی جانب سے نتائج کے اعلان میں غیر ضروری تاخیر ہی قرار پاتا ہے ۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کے مطابق الیکشن کمیشن انتخابی نتائج کے لئے فوری رزلٹ مینجمنٹ سسٹم قائم کرنے جبکہ ریٹرنگ آفیسر رات دو بجے سے پہلے پہلے انتخابات کے نتائج الیکشن کمیشن کو دینے کا پابند ہے اس میں کتنی تاخیر ہوئی اورحتمی نتائج مرتب ہو کراعلان میں کتنا وقت لگے گادم تحریر اس حوالے سے کوئی اندازہ لگانا ممکن نہیںتاخیر درتاخیر اور تبدیل ہوئے نتائج سے عام انتخابات کا پورا عمل گھنا گیا ہے اور اس پر اٹھتے سوالات میں اضافہ ہونا فطری امر ہے اور ان نتائج کو متنازعہ قرار دے کر قبول نہ کرنے الیکشن ٹریبونلز سے رجوع ہی مشکل مرحلہ نہیں بلکہ حکومت سازی کے عمل میں بھی مشکلات کا سامنا نہ بھی ہوا توبھی جیت اور ہار کا سوال اور نتائج تبدیل کرنے کے الزامات کے باعث سارا مینڈیٹ ہی مشکوک ہوگا جس کے پارلیمان اور حکومت دونوں پرایسے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جس کے باعث ملک میں پہلے سے موجود غیریقینی اورعدم اعتماد کی فضا میں اضافہ ہوسکتا ہے ۔دیکھا جائے تو میڈیااور خصوصاً سوشل میڈیا کا کردار بھی انتخابی نتائج کو مشکوک بنانے کا باعث بنے جہاں ایک سیاسی جماعت کے آزاد امیدواروں کی کامیابی کے دعوے کرکے خود ساختہ گراف بنائے گئے جس سے حامیوں کو یقین اور مخالفین کے ذہنوں کو شکوک وشبہات کا شکار بنا دیا اورجب حتمی نتائج کا سست مرحلہ شروع ہوا تو اس وقت تک ہونے والے اس پختہ تاثرکو ذہنوں سے محو کرنا اور نئے نتائج کو شرح صدر سے قبول نہ کرنا عین فطری امر تھا۔بدقسمتی سے ملک میں ہونے والے انتخابات کے نتائج ہربار کسی نہ کسی وجہ سے مشکوک بنائے جاتے ہیں اور بجائے اس کے کہ انتخابات سے نئی قیادت اور مستحکم حکومت سامنے آنے کے سیاسی تقطیب مزید گہری ہوتی ہے جس کے منفی اثرات سیاست حکومت اور معیشت و عوام سبھی پر پڑتے ہیں اور قوم 76سالوں سے اس گرداب سے نہیں نکل سکی ہے ۔اس گرداب سے نکلنے اور ملک میں داخلی و سیاسی استحکام کا تقاضا ہے کہ اس طرح کے عوامل سے گریز کیا جائے جو شکوک و شبہات اور غیر یقینی کی فضا کو جنم دیتے ہیں شفاف انتخابات اور عوامی رائے کو تسلیم کرکے ہی ایسا ممکن ہوسکتا ہے جس کے لئے کوئی بھی تیار نہیں۔

مزید پڑھیں:  چھوٹے کام ، بڑا اثر!