انتخابی نتائج پراختلاف انتشار میں تبدیل نہ ہو

پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنماء نے دعویٰ کیا کہ ان کی60 نشستیں چھینی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے تمام آپشنز کھلے رکھے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم ٹریبونلز میں جائیں گے، ضرورت پڑی تو عدالت بھی جائیں گے، کچھ حلقوں کے فارم47نہیں دئیے گئے ان کا کہنا تھا کہ60سیٹیں حاصل کرنے کے لئے قانونی راستہ اپنائیں گے، ثبوت پیش کرنے میں تاخیر نہیں کریں گے، ٹریبونل جلد فیصلہ کرے۔دریں اثناء امیدواروں کی شکایات کے باعث الیکشن کمیشن نے ملک بھر کے 26حلقوں پر نتائج جاری کرنے سے روک دیئے ا ور ریٹرننگ افسران کو ان حلقوں پر امیدواروں کی کامیابی کے حتمی نوٹیفکیشنز جاری کرنے سے روک دیا ان حلقوں میں پشاورکے 9حلقے بھی شامل ہیں۔ان سطور کی اشاعت تک اس بارے میں کافی پیشرفت کی بھی توقع ہے اس کے ساتھ ساتھ پاکستان تحریک انصاف نے اپنے حمایت یافتہ کامیاب امیدواروں سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ( ن) کے رابطوں کے بعد استعفے اور حلف نامے مانگ لئے ہیں اور بعض امیدواروں کے حلف داخل کرنے کی بھی اطلاعات ہیں کہا جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ( ن) نے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ20سے زائد ارکان سے رابطے کر رہے ہیں اور ان کو کچھ کے حمایت کے حصول میں کامیابی کی بھی شنید ہے ۔ایک ایسے وقت میں جب مخالف سیاسی جماعتوں کاہوم ورک مکمل ہے اور انہوں نے حکومت سازی کے لئے صلاح مشورہ اوررابطے کر رہے ہیں تحریک انصاف اپنے آزاد امیدواروں کی کثیر تعداد کا ذکر تو کر رہی ہے لیکن حکومت سازی پر توجہ کی بجائے الیکشن میں دھاندلی یا پھر نتائج کے الٹ پھیر میں الجھی ہوئی ہے انتخابی نتائج پر تحفظات کا اظہار اوراسے چیلنج کرناان کا حق ہے لیکن اس عمل کو پارٹی بیانیہ بنانے کی بجائے بہتر ہو گا کہ وہ اس عمل کو متاثرہ امیدواروں اور قانونی ٹیم کے حوالے کرکے حکومت سازی کی سعی کرے تاکہ اس سے وابستہ آزاد اراکین کسی دوسری جماعت کی طرف مائل نہ ہوں ا کثریت میں ہونے اور مزید متنازعہ نشستوں پرکامیابی کی امید رکھنے کے باوجود اگر حکومت سازی کے حق کابیانیہ بنانے میں مزید تاخیر ہوئی تو یہ اس امر کا اظہار ہو گا کہ ان کا نہ تو ہوم ورک مکمل ہے اور نہ ہی ان کے پاس ایسے رابطوں کی گنجائش کی حامل جماعتیں ہیں ایسے میں بقاء کی جنگ ہی کا راستہ رہ جاتا ہے جسے اختیار کرنے سے ممکن ہے اسے خود اپنی صفوں میں بھی ہلچل او رکمزوری کا احساس ہو خیبر پختونخوا میں غالب اکثریتی جماعت ہونے کے باجود وزیر اعلیٰ کے امیدوار کے لئے کسی نام کااعلان سامنے نہ آنے سے اگرچہ کسی خطرے کی گھنٹی تو نہیں بجے گی لیکن پارٹی گروپ بندی کا شکار ہو سکتی ہے جس سے بچنے کا تقاضا ہے کہ مخمصے کی صورتحال کاجتنا جلد ممکن ہو سکے خاتمہ کیا جائے اس ضمن میں اب تک جن امیدواروںکے نام لئے جا رہے ہیں ان میں پارٹی کے صوبائی صدر کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے اور دیکھا جائے تو وہ میرٹ پر موزوں امیدواربھی ہیں بہرحال یہ جماعت کی مشاورت اور قائدین کا فیصلہ ہوگا کہ وہ کسے نامزد کرتے ہیں البتہ بہتر ہو گا کہ وہ اس ضمن میں تاخیر کی بجائے تعجیل کا مظاہرہ کریں اوردیگر صوبوں سے پہلے حکومت سازی کا عمل مکمل کریں تو یہ ان کے لئے فائدہ مند ثابت ہو گا جہاں تک انتخابی ناانصافیوں کا تعلق ہے اس بارے احتجاج کرتے ہوئے اس امر کا خیال رکھا جانا چاہئے کہ احتجاج کا عمل خیبر پختونخوا میں کم سے کم ہو پرامن ہو اور عوام کے لئے مشکلات کا باعث نہ بنے جہاں سے پوری کامیابی ملی ہو وہاں احتجاج موثر پیغام کا حامل بھی کم ہی ہوگا جہاں تک نتائج کی تبدیلی کے خلاف جدوجہدکا تعلق ہے ظاہر ہے جب یہ معاملات ا لیکشن کمیشن اور ٹریبونل میں جائے تواحتجاج اور دبائو کی بجائے قانونی ذرائع کابھرپور استعمال ہی فائدہ مند ہوگا ثبوت اور شواہد سے اپنے مقدمے کو ثابت کرکے ہی اپنے حق میں فیصلے کا حصول ممکن ہوگا ملک جن حالات کا شکار ہے اور عوام کی جوحالت ہے وہ احتجاج و بدامنی کے واقعات کے متحمل ہونے کی نہیں طاقت کے استعمال اور ٹکرائو کی پالیسی جس جانب سے بھی اختیار کی جائے گی وہ دانشمند انہ نہ ہوگا۔موزوں ہو گا کہ تمام سیاسی وغیر سیاسی فریق ملک میں سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کی ذمہ دارانہ سعی کریں اپنی اصلاح پر بھی توجہ کی ضرورت اور ایسے عمل سے گریز کیا جانا چاہئے جو تضادات کا باعث بنے ۔

مزید پڑھیں:  چھوٹے کام ، بڑا اثر!