دہشت گردی میں اضافہ

گزشتہ کچھ عرصے سے ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ یقینا باعث تشویش ہے اور ان واقعات کی پشت پر موجود عوامل کی تحقیقات ازبس ضروری ہیں کہ آخر وہ کیا وجوہات ہیں جن کی وجہ سے یہ وارداتیں بڑھ رہی ہیں ، اس حوالے سے نہ صرف آئی ایس پی آر کی جانب سے گزشتہ روز شانگلہ میں ہونے والے واقعے پر کیا جانے والا تبصرہ اہمیت کا حامل اور توجہ کے قابل ہے ، جس میں ایک خود کش حملے کے نتیجے میں ایک پاکستانی ڈرائیور سمیت پانچ چینی انجینئرز جاں بحق ہو گئے بلکہ وزیر اعظم شہباز شریف کے اس بیان کو بھی مد نظر رکھنا پڑے گا جو انہوں نے اسلام آباد کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دیا ہے ، آئی ایس پی آر کے بیان میں ایک اہم نکتہ اٹھایا گیا ہے کہ شانگلہ واقعہ پاکستان اور چین میں اختلافات پیدا کرنے کی کوشش ہے ، بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ معصومیت کے لبادے میں شدت پسند عناصر دہشت گردی کے سر پرستوں کے طور پر بے نقاب ہو رہے ہیں ادھر دوسری جانب تربت میں پاک بحریہ کے ایئر بیس پر ایک اور دہشت گردانہ حملے کو ناکام بناتے ہوئے پاکستانی فورسز نے چار دہشت گرد ہلاک کر دیئے ہیں ان حملوں کی بنیاد ایک ہی دکھائی دیتی ہے کہ پاکستان میں چینی سرمایہ کاری اور خاص طور پر سی پیک منصوبے کے تحت پیش رفت کو کسی طریقے سے روک کر پاکستان کی معیشت کو کمزور کیا جائے ، جبکہ وزیر اعظم شہباز شریف نے ٹیکس ایکسیلنس ایوارڈز کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جس نکتے کی جانب اشارہ کیا ہے وہ انتہائی اہم ہے ، انہوں نے کہا کہ معیشت کو مضبوط کرنا ناگزیر ہے کیونکہ کمزور کی آواز کوئی نہیں سنتا ، اب کشکول نہ بھی لے کر جائیں تو اگلے کہتے ہیں کشکول ان کی بغل میں ہے ، حکومت کا کام نجی شعبہ کو ساز گار ماحول دینا ہے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنا ہے ، ادھر دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ حکومت پاکستان شانگلہ میں دہشت گرد حملے کی مذمت کرتی ہے ، دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کریں گے ، دوسری جانب چین نے بشام میں دہشت گرد حملہ کی تحقیقات کا مطالبہ کر دیا ہے جو درپیش حالات میں ایک درست مطالبہ ہے اور وزیر اعظم شہباز شریف کا تعزیت کے لئے اسلام آباد میں چین کے سفارتخانے جا کر اس بات کی یقین دہانی کرانا کہ محولہ حملے کے سہولت کاروں کو قرار واقعی سزا دیں گے ایک بہترین عمل ہے ،اس حوالے سے وزیر اعظم کا اسلام آباد تقریب میں خیالات کو خاصی اہمیت حاصل ہے اور اس پر دال ہے کہ کوئی بھی ملک مضبوط معیشت کے بغیر نہیں چل سکتا جبکہ چین اس وقت پاکستان کی معیشت کی ترقی میں جو کردار ادا کر رہا ہے اور سی پیک کے مختلف منصوبوں کے تحت چینی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کرکے پاکستان کے ایک حقیقی ہمسایہ اور دوست ہونے کا جو ثبوت دے رہا ہے اس کا تقاضا یہی ہے کہ پاکستان چینی انجینئرز اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین کے ساتھ ساتھ چینی سرمایہ کاروں کے تحفظ پر خصوصی توجہ دے تاہم اس حوالے سے ایک اہم سوال اٹھتا ہے کہ جو مبینہ غیر ملکی قوتیں اور ان کے پاکستانی سہولت کاروں کو چینی باشندوں کی نقل و حرکت کے بارے میں انتہائی حساس معلومات کیسے مل جاتی ہیں ؟ گزشتہ روز کے شانگلہ واقعہ کو ہی سامنے رکھیں تو صرف ایک روز پہلے چین سے پاکستان آکر شانگلہ جانے والے چینی انجینئرز کے بارے میں ٹھیک ٹھیک معلومات کیسے پاکستان دشمن دہشت گردوں تک پہنچیں اور انہوں نے چینی باشندوں کی گاڑی پر جان لیوا حملہ کرا کے انہیں ہلاک کیا؟ چینی انجینئرز داسو ڈیم پر اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے جارہے تھے جو مستقبل میں پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا ایک اہم منصوبہ ہے مگر پاکستان دشمن عناصراس قسم کے منصوبوں کو ناکام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ پاکستان ترقی سے محروم ایک بے دست و پا قوم کے طور پر زندہ رہے اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ نہ صرف دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے پر توجہ دی جائے جو اللہ کے فضل و کرم سے پاکستانی سکیورٹی ادارے بخوبی انجام دے رہے ہیں بلکہ ان واقعات کے پیچھے چھپے ہوئے اصل کرداروں کو بھی بے نقاب کیا جائے اور ان کو کیفر کردار تک پہنچا کر پاک چین دوستی کو تحفظ فراہم کیا جائے۔

مزید پڑھیں:  ''روٹی تھما کر چاقو چھیننے کا وقت''؟