عدلیہ مداخلت الزامات۔ تحقیقاتی کمیشن

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کو ارسال کردہ خط میں عدلیہ کے معاملات میں مداخلت ، ججز پرمبینہ دبائو جیسے الزامات پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے وزیر اعظم کو ملاقات کے پیغام کے بعد حالات پر باہم مشاورت کے بعد حکومت نے ایک رکنی تحقیقاتی کمیشن بنانے کا اعلان کر دیا ہے کمیشن سابق جج سپریم کورٹ پر مشتمل ہوگا جس کے لئے اگرچہ ابتداء میں دو نام سامنے آئے ہیں جبکہ کچھ دیگر ناموں کے بارے میں بھی غور کیا جارہا ہے ، اس ضمن میں وزیر اعظم تحقیقاتی کمیشن کے معاملے کو آج (بروز ہفتہ) وفاقی کابینہ کے سامنے رکھیں گے تاکہ اس پر آئینی تقاضوں کے مطابق فیصلہ کیا جا سکے ، وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کے مطابق ملک میں قانون موجود ہے اور آئین کے مطابق اس طرح کے معاملات پر تحقیقات حکومت کرواتی ہے ، چیف جسٹس کے ساتھ ملاقات میں وزیر اعظم نے اس بات کا عندیہ دیا کہ اس معاملے کی مکمل چھان بین کرائی جائے گی اور عدلیہ کے معاملات میں کسی قسم کی مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی ، اس ملاقات کے بعد چیف جسٹس نے ایک فل کورٹ اجلاس میں تمام ججوں کو ملاقات کے حوالے سے اعتماد میں لیا ، چیف جسٹس نے اس موقع پر کہا کہ عدلیہ میں کسی قسم کی مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی ، اجلاس میں ججز کے خط پر غور کیا گیا ، اور ججز کے خط کی آئینی و قانونی حیثیت کا جائزہ لیا گیا اس سے ایک روز پہلے چیف جسٹس کی اپنی ٹیموں کے ساتھ ملاقات میں ایک رکنی تحقیقاتی کمیشن کے قیام پر اتفاق ہوچکا ہے اور امید ہے کہ اب کسی بھی وقت وفاقی کابینہ کے ممکنہ فیصلے کے بعد اس حوالے سے کمیشن کے قیام کا نہ صرف اعلان ہوجائے گا بلکہ اس کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا جائے گا تو امید ہے کہ متعلقہ کمیشن فوری طور پر اس معاملے کی تحقیقات کا آغاز کرکے تمام تر شکایتوں کا جائزہ لینے کی ذمہ داری نبھانے میں کوئی تاخیر نہیں کرے گا ، اعلامیہ کے سامنے آنے کے بعد ہی معلوم ہوسکے گا کہ متعلقہ تحقیقات کمیشن کو اپنے کام کی تکمیل کے لئے کتنے دن کی مہلت دی جائے ، اگرچہ سوشل میڈیا پر چلنے والی بعض اطلاعات کے مطابق کمیشن کو مبینہ طور پر ایک یا دس دن دیئے جانے کی توقع ہے بہرحال یہ تو اعلان سامنے آنے کے بعد ہی کیا جا سکے گا اصل صورتحال کیا ہے البتہ ایک بات کی جانب توجہ دلانا ضروری ہے کہ ماضی میں مختلف معاملات پر اس قسم کی تحقیقاتی کمیشنوں کے قیام کے بعد تحقیقات کے لئے متعین کردہ مدت میں تحقیقات شاذو نادر ہی مکمل کی جاتی رہی ہیں اور اکثر اضافی مدت ہی میں معاملات نمٹانے کی ضرورت آن پڑی تھی دوسرے یہ کہ کئی معاملات پر تحقیقاتی رپورٹیں مرتب ہونے کے بعد انہیں سرد خانے کی نذر کرنے کی حکمت عملی اختیار کی جاتی رہی ہیں ، اس لئے امید ہے کہ اس مسئلے کو کسی بھی طور ”التوائ” میں ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی کیونکہ یہ ایک انتہائی حساس معاملہ ہے اور خود چیف جسٹس نے ججوں کے ا لزامات کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد فل کورٹ اجلاس بلاے کا اعلان کر دیا ہے ، اور چونکہ چیف جسٹس اس معاملے میں نہ صرف خاصے سنجیدہ ہیں بلکہ ان کے مختلف اہم معاملات پر کنڈکٹ کو دیکھتے ہوئے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ اس اہم معاملے کو منطقی انجام تک پہنچا کر ہی دم لیں گے ۔ بد قسمتی سے یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے جب عدلیہ میں ”مداخلت” کے الزامات سامنے آتے رہے ہیں ، اس ضمن میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور ان سے بھی پہلے میاں نواز شریف کو سزا دلوانے کے حوالے سے مرحوم جج بشیر کے ویڈیو انٹرویو میں مبینہ دبائو کے الزامات بھی موجود ہیں جبکہ ماضی بعید میں ذوالفقار علی بھٹو کیس کے حوالے سے بھی ججوں کے اعتراضات ریکارڈ کا حصہ ہیں اس لئے امید ہے کہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا جائے گا اور ججوں کے الزامات کی غیر جانبدارانہ تحقیقات سے مسئلے کا مستقل حل نکالا جائے گا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭

مزید پڑھیں:  شفافیت کی شرط پراچھی سکیم