کشکول بدست حکومت

وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں بننے والی حکومت کی تمام تر توجہ آئی ایم ایف سے حصول قرض کی ہے اور ان کے تمام اقدامات کا محور بھی قرضے کا حصول ہے اب تک ہونے والے اقدامات سے حکومت کی اور ترجیح واضح ہی نہیں وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ کا کہنا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے وزارتوں کو آئی ایم ایف کے اہداف پورے کرنے کا ٹاسک سونپ دیا ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ وزیراعظم نے وزارتوں کو آئی ایم ایف اہداف پورے کرنے کا ہدف دیا ہے۔ان اقدامات کے ساتھ ساتھ حکومت نے آئی ایم ایف کو نئے پروگرام کے لیے بجلی، گیس مہنگی اور نئے ٹیکسز لگانے کی بھی یقین دہانی کرا دی ہے۔ پاکستان کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے تین ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ پروگرام کے ختم ہوتے ہی سات ارب ڈالر سے زائد مالیت کا تین سالہ نیا ایکسٹنڈڈ فنڈ فسیلٹی پروگرام ملنے کی توقع ہے۔ اس کے لیے حکومت نے بجلی گیس ٹیرف بڑھانے اور نئے ٹیکس اقدامات اٹھانے کی یقین دہانی کرا دی ہے ۔ایک جانب یہ سب اقدامات اور دوسری جانبعالمی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف) کی کڑی شرائط پر عمل درآمد کے اثرات سامنے آنے لگے، آئی ایم ایف کے مطالبے پر برآمدی شعبے کیلئے مراعات ختم کرنے سے برآمدات متاثر ہونے لگی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال ٹیکسٹائل برآمدات میں سالانہ بنیادوں پر 14.5 فیصد یا تقریباً 3 ارب ڈالرز کی کمی ریکارڈ کی گئی۔ حکومتی ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کی سخت شرائط کے باعث ملکی برآمدات متاثر ہونے کا وزارت تجارت کی سطح پر اعتراف موجود ہے۔آئی ایم ایف کے مطالبے پر برآمدی شعبے کے لیے مراعات ختم کی گئیں اور آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر عمل درآمد سے برآمدات کا تسلسل ٹوٹا۔آئی ایم ایف کے مطالبے پر برآمدی شعبے کے لیے رعایتی نرخوں پر بجلی وگیس کی فراہمی ختم کرنے کے نتیجہ میں پیداواری لاگت بڑھ گئی جس نے انڈسٹری کو بین الاقوامی طورپر مسابقت کے قابل نہیں چھوڑا اور یوں ملکی برآمدات پر منفی اثر پڑا۔ ذرائع کے مطابق برآمدی شعبے کے لیے بجلی کی9سینٹ فی یونٹ اور ایل این جی کی9ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو پر فراہمی روکنے سے برآمدات متاثر ہوئیں۔ مالی سال2022میں ٹیکسٹائل برآمدات ریکارڈ 19ارب 30کروڑ ڈالرز ہوگئیں تھیں تاہم یہ سلسلہ برقرار نہ رہ سکا اورمالی سال2023میں ٹیکسٹائل برآمدات کم ہو کر16ارب 50کروڑ ڈالرز رہ گئیں ۔وزیر دفاع خواجہ آصف نے صورتحال کے حوالے سے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ جیسی صورتحال کا سامنا کر رہا ہے اور تقریبا دیوالیہ ہو چکا ہے، اس بحران کی وجہ بڑی مچھلیوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری ہے۔وزیر نے کہا کہ خوردہ فروش اور تھوک فروش جیسے بڑے شعبے اپنی ٹیکس ڈیوٹی پوری کرنے میں ہچکچا رہے ہیں، جو انہوں نے کہا کہ ملک کی معاشی پریشانیوں کی بنیادی وجہ ہے ۔ انہوںنے اعتراف کیا کہ حکومت عوام کو فوری ریلیف نہیں دے سکی۔ ٹیکس کا بوجھ غیر متناسب طور پر تنخواہ دار طبقے پر پڑتا ہے جبکہ دوسرے اس اہم ذمہ داری کو نظرانداز کرتے ہیں۔انہوں نے دعوی کیا کہ 2.6ٹریلین روپے کے ٹیکس سے متعلق کیس عدالتوں میں تعطل کا شکار ہیںیہ تمام تفصیلات جہاں ایک جانب آئی ایم ایف سے حصول کے لئے حکومتی مساعی کی ہیں وہاں اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ماضی کی حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت کی پالیسیاں بھی عوام کو گنا کی طرح مشین میں ڈال کر نچوڑنا ہے حکومتی اقدامات اور فیصلوں سے سارا بوجھ عوام ہی پر پڑے گا ان اقدامات کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس سے معاشی نمو متاثرہ ہوتی ہے صنعتی شعبہ اور کاروبار روز گار جوپہلے ہی آخری سانسیں لے رہی ہیں ایندھن کی قیمت میں اضافہ اور ٹیکسوں کا مزید بوجھ سہار نہیں سکیں گی برآمدات میں کمی سے تجارتی خسارہ بھی بڑھ رہا ہے اور حکومتی اقدامات کے باعث مقامی صنعتیں درآمدی اشیاء کے مقابلے میں غیر معیاری ہونے کے باوجود سستی نہیں جس کے باعث عوام غیر ملکی مصنوعات کے استعمال کی طرف مجبوراً متوجہ ہوتے ہیں تمام تر حکومتی دعوئوں کے باوجود سمگلنگ کا مال بڑے پیمانے پر فروخت ہو رہا ہے ٹیکسوں کی وصولی میں مشکلات اور رکاوٹوں کے بارے میں وزیر دفاع کے بیان میں اضافہ کی گنجائش نہیں ساتھ ہی ملک میں سیاسی عدم استحکام بھی معیشت پر اثر انداز ہونے والا عامل ہے ان حالات میں سمجھ نہیں آتی کہ حکومت ان مشکلات پر کیسے قابو پائے گی اور عوام کوکب تک نچوڑا جاتا رہے گاسخت اور ناگزیر معاشی فیصلے اپنی جگہ لیکن عوام کو بھی سرنگ کے دہانے پر روشنی کی کوئی کرن نظر آنی چاہئے لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو فی الحال اس طرف غور کرنے کی فرصت نہیں۔

مزید پڑھیں:  ''ہمارے ''بھی ہیں مہر باں کیسے کیسے