کشمیر ہندو تواکے سیلاب میں ڈوب رہا ہے

کشمیر ہندو توا کے سیلاب کی لہروں کے دوش پر ہے ۔سات عشروں تک کشمیر کی انڈینائزیشن کی ہر کوشش ناکامی سے دوچار ہوئی تو پانچ اگست 2019کو سارے سپیڈ بریکر ٹوٹ جانے کے بعد کشمیر کی ہندووائزیشن کا عمل شروع کیا گیا ہے ۔کشمیر کو ہندو تہذیب وثقافت کا نشان بنا یا جائے اور اس کی اسلامی شناخت کو رریورس گیئر لگا دیا جائے ۔اسی ذہنیت کے تحت اُٹھائے جانے والے اقدامات کی خبریں سامنے آکر ایک نئی واردات کا پتا دے رہی ہیں۔ایسی ہی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جموں وکشمیر میں آر ایس ایس کے سکولوں کا جال بچھا کرکشمیری بچوں کی ذہن سازی کی جارہی ہے۔آر ایس ایس کی معاون تنظیم ”سیوا بھارتی ”کے زیر اہتمام جموں وکشمیر میں بارہ سو سے زیادہ تعلیمی ادارے چلائے جا رہے ہیں۔جن میں قرآن مجید کی تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کو ہندوستانی بننے کا سبق پڑھایا جا رہا ہے۔کشمیری بچوں کو کشمیریت اور بھارتیہ کا ایک نیا مطلب اور مفہوم بتا یا جا رہا ہے۔”ایکل ودہالیہ ابھیان” پروجیکٹ کشمیر تک دراز کیا جاچکا ہے۔ان سکولوں میں پچانوے فیصد مسلمان بچے ہیں جن کو ہندئوں کی تہذیب اور ثقافت کے ہندوستانی ہونے کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ وادی کشمیر کے دس اضلاع میںایسے بارہ سو سکول کھولے گئے ہیںصرف بارہ مولہ کے علاقے میںجہاں امن وامان کی صورت حال زیادہ اچھی نہیں رہی اس پروجیکٹ کے ایک سو اسی سکول کام کر رہے ہیں۔رواں برس سکولوں کی تعداد میںد وگنا اضافہ کیا گیا ہے۔چند برس قبل تک کشمیر میںآ ر ایس ایس کے سکولوں کے قیام کا تصور بھی محال تھا مگر اب یہ سب کچھ عملی شکل میں ظاہر ہورہاہے۔اس قدر بڑی تعداد میں تعلیمی اداروں کے قیام سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کتنی تیزی سے کشمیر کی نئی نسل کے ذہن اور دل بدلنے کا کام کیا جا رہا ہوگا۔ان سکولوں کے ذمہ داروں اور اساتذہ کی معلومات کو خفیہ رکھا جا رہا ہے۔وادی میںآر ایس ایس کے سکولوں کے پھیلائو سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کشمیر میں ایک مخصوص تہذیب وتمدن کو پھیلانے اوربچوں کی ذہن سازی کے لئے بنیاد تیار کی جا رہی ہے۔یہ سب کچھ ایسے میں ہورہا ہے جب کشمیر میں مقامی اور اسلامی شناخت کے حامل تعلیمی اداروں کو پابندیوں کا شکار کر دیا گیا ہے اور ان تعلیمی اداروں کے اثاثہ جات کو قبضے میں لیا گیا ہے ۔ان میں مسلم تہذیب کو اُجاگر کرنے والا سب سے بڑااور منظم تعلیمی نیٹ روک بھی شامل ہے جو دہائیوں سے کشمیر میں فلاح عام ٹرسٹ کے نام سے اپنا کام کرتا چلا آرہا ہے ۔یہ جماعت اسلامی کا تعلیمی نیٹ ورک تھا جس کے بار ے میں بھارتی دانشوروں کا اندازہ تھا کہ کشمیر میں بغاوت اور حریت کی چنگاری کو شعلہ بنانے اور ان شعلوں کو ہوا دینے کا کام یہی تعلیمی نیٹ ورک انجام دیتا رہا ہے ۔اس نظام کے تحت تعلیم حاصل کرنے والے یا بطور مدرس اپنے فرائض انجام دینے والوں نے کشمیر کی چالیس سال سے جاری مزاحمت میں کلیدی کردار ادا کیا ہے ۔اب اسی عمل کو ریورس گیئر لگانے اور وقت کا پہیہ اُلٹا گھمانے کے لئے کشمیر کی نسل نو کی ذہن سازی کا کام آر ایس ایس اور اس جیسی دوسری سخت گیر ہندو تنظیموں کے حوالے کیا جا رہا ہے۔اس کے ساتھ ہی کشمیر میں مسلم تہذیب کی مضبوط یادگاروں اور علامتوں کو مختلف انداز سے پابندیوں کا شکار بنا کر ہندو تہذیب کی علامتوں کو اُبھارنے کا عمل جا ری ہے ۔شاردہ مند جو مقبوضہ علاقے میں موجود ہی نہیں مگر اس کی علامتی یادگار وادی نیلم کے بالمقابل ٹیٹوال قصبے میں تعمیر کی گئی ہے مگر جامع مسجد سری نگر جو نہ صرف کشمیر کے قلب سری نگر میں ایک زندہ حقیقت کے طور پر موجود ہے برسوں سے مقفل خاردار تاروں کی لپیٹ میں ہے اور اس مسجد سے وابستہ دینی اور سیاسی راہنما میرواعظ عمر فاروق کو مسجد میں جمعہ کا خطبہ دینے کی اجازت نہیں۔بیرون ریاست سے ہندوئوں کوکشمیر میں بسانے کا عمل نہ صرف تیز ہوگیا ہے بلکہ آر ایس ایس جیسی ہندو توااور ہندو راشٹریہ کی علمبردار جماعتوںکو سرکاری سرپرستی میں پھلنے پھولنے کے مواقع فراہم کئے جا رہے ہیں۔کشمیر کے مذہبی سکالروں کی زباں بندی کر دی گئی ہے اور ان کے خطبات سے اسلامی تاریخ کی معرکہ آرائیوں کی باتیں حذف کر دی گئی ہیں ۔کشمیر مسلمانوں کے مذہبی حقوق کی بات کرنے والے سید علی گیلانی اس جہان فانی سے کوچ کر چکے ہیں اور دوبارہ اس قد کاٹھ کی کوئی شخصیت اُبھرنا ممکن نہیں رہا ۔میرواعظ عمرفاروق جو اپنا دینی حلقہ اثر رکھتے ہیں پانچ سال سے خانہ نظر بند ہیں اور ان کی آواز کو دبایا جا رہاہے۔ خوف اور دہشت کا ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ ماہ رمضان المبارک میں کشمیریوں کے لئے تربوز خریدنا بھی مشکل بنا دیا گیا تھا کہ اس پھل کو فلسطینیوں سے منسوب کیا گیا ہے۔کشمیر کے حالات اور واقعات سے عمومی طور پر الگ رہنے والے بھارتی مسلمان بھی اس حقیقت کا ادراک کرنے لگے ہیں کہ انہیں تہذیبی یلغار کے مقابلے میں کشمیری مسلمانوں کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہئے ۔پہلے بھارتی مسلمان اس مسئلے کی حساسیت اور علیحدگی پسند ہونے کا ٹھپہ لگنے کے خوف سے کشمیر کے حالات سے الگ تھے اب بھارت نے کشمیر کی متنازعہ حیثیت کے سارے بند توڑ دئیے ہیں تو بھارت کی مسلمان تنظیموں اور تعلیمی اداروں کو آر ایس ایس کے طوفان کے آگے بند باندھنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے ۔ایسے ادارے چلانے والوںکا دعویٰ ہے کہ وہ کشمیر کی نئی نسل کے ہاتھ سے پتھر چھین کر کتاب تھمانا چاہتے ہیں۔وادی کے 480دیہاتوں میں پھیلے ہوئے ان سکولوں کو چلانے کے لئے اندرون اور بیرون بھارت سے ہندو تنظیموں کی طرف سے129کروڑ روپے بطور عطیہ موصول ہو رہے ہیں۔گویا کہ یہ ہندومشنری سکول ہیں۔ان تعلیمی اداروں کے نصاب میں ایک مضمون کشمیریت کے نام سے بھی شامل ہے جس میں کشمیر کے مسلمان بچوں کوکشمیر کی وہ تاریخ اور حقیقت پڑھائی جا رہی ہے جو بھارت کا موقف ہے۔گویاکہ کشمیر کا تعلق سلطاطین کشمیر کے عہد سے پرے کے قدیم ادوار سے جوڑ کر کشمیر پر اپنے دعوے کو نظریاتی طور پر مضبوط بنایا جا رہا ہے۔

مزید پڑھیں:  بلدیاتی نمائندوں کیلئے فنڈز کی فراہمی؟