لائوڈسپیکر بم

پاکستان میں شہر بہت تیزی کے ساتھ گنجان آبادہورہے ہیں ۔دیہات اور شہروں سے دور بسنے والوںکو روزگار اور زندگی کی بنیادی سہولیات میسر نہ ہونے کی وجہ سے لوگ شہروںکا رُخ کررہے ہیں ۔ آبادی کا بڑا حصہ شہروں میں بھی زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہے ۔شہروں کے گنجان آباد ہونے سے بہت سارے مسائل جنم لے رہے ہیں شہروں میں صفائی نام کی کوئی شے نہیں ہے ۔ پانی آلودہ ہے ۔مکانوں کی تعمیر میں کسی ٹاون پلاننگ کا خیال نہیں رکھا جاتا ۔سیوریج کا نظام کہیں بھی موجود نہیں ہے ۔ ان شہروں میں بسنے والوں کے بیشتر بچے سکول بھی نہیں جاتے ۔جس کی وجہ سے جہالت روز بروز بڑھ رہی ہے ۔منشیات کا استعمال عام ہورہا ہے ۔ شہروں میں چوریاں معمول بن چکی ہیں ۔ اس جیسے ہزاروں دیگر مسائل شہریوں کو درپیش ہیں ۔ لیکن ایک ایسا مسئلہ بھی ہے جس کی طرف عموماً کم ہی توجہ دی جاتی ہے ۔ وہ مسئلہ ہے صوتی آلودگی کا ۔ شہروں میں شور بہت بڑھ گیا ہے سڑکوں کے اطراف کے علاقوں میں گاڑیوں کا بے ہنگم شور لوگوں کے اعصاب خراب کررہا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ مساجد اورمختلف مذہبی ، سیاسی ، سماجی اور کاروباری اجتماعات میں لاوڈ سپیکر کا اتنا غیر ضروری استعمال شروع ہوگیا ہے کہ کوئی بھی شہری اپنے گھر میں سکون سے سو نہیں سکتا ۔ گنجان آباد شہر کے ہر کونے میں کسی نہ کسی گھر میں شادی یا کسی اور خوشی کے موقع پر شہر میں موجود ڈی جیز کو بلایا جاتا ہے جو طاقتور لاوڈسپیکروں کی مدد سے رات کے آخری پہر تک پشتو اور انڈین گانے لگاکر لوگوں کی زندگی اجیرن بنا دیتے ہیں ۔ جس گھر میں یہ سب کچھ ہورہا ہوتا ہے اس کے مکینوں کو اپنے پاس پڑوس کا کوئی لحاظ نہیں ہوتا ۔ یہ آواز میلوں دور تک سفر کرتی ہے اس لیے کہ رات کو باقی شور کم ہوجاتا ہے ۔ مگر اس معاشرتی خرابی کو جو روز بروز بڑھ رہی ہے ختم کرنے یا پھر قابو کرنے میں حکومت کو ئی دلچسپی نہیں لے رہی ۔ گلی گلی کھلنے والے شادی ہالوں نے بھی اس شور کو بڑھا دیا ہے ۔اصولی طور پر تو شادی ہالوں کو قانونی اجازت دیتے ہوئے اس بات کا تعین کرنا چاہئیے کہ شادی ہال ساونڈ پروف ہے یا نہیں ۔ اگر اس ہال سے آواز باہر جارہی ہے تو اس میں بلند آواز سے موسیقی لگانے پر مکمل پابندی ہونی چاہیے ۔ شہر کا انتظام سنبھالنے والے سینکڑوں سرکاری عملہ اور پولیس کی فورس اگر ان سے بھتہ لینا بند کردیں اور انہیں قانون کا پابند بنا دیں تو لوگ رات کو سکون سے سو سکیں گے ۔ ایک بہت ہی گھمبیر مسئلہ مساجد اور مذہبی اجتماعات میں لاوڈ سپیکر کے غیر ضروری استعمال کا بھی ہے ۔ اذان کے لیے لاوڈ سپیکر کا استعمال درست ہے لیکن گھنٹوں تک لاوڈ سپیکر پر تقریروں اور نعت خوانی کی وجہ سے بھی پاس پڑوس کے لوگوں کا ذہنی سکون ختم ہوچکا ہے ۔ رمضان کابابرکت مہینہ عبادتوں اور سکون کا مہینہ کہلاتا ہے لیکن دن کو روزہ رکھ کر رات کو ان لاوڈسپیکر وںپر شور کی وجہ سے کوئی بھی سو نہیں پاتا۔ شرعی طور پر بھی لاوڈ سپیکر کے غیر ضروری استعمال کی ممانعت کی گئی ہے اور قانون کی رو سے بھی یہ جرم ہے ۔ مگر اس ملک میں قانون کی پابندی کا سلسلہ کب کا موقوف ہوچکا ہے ۔ پھر ہر گلی اور کونے میں اجتماعات کا اہتمام بھی معمول بن چکا ہے ۔جس میں لاوڈسپیکر پر لوگ اپنی فرسٹریشن نکالنے کو اپنا مذہبی ، سماجی اور سیاسی فریضہ سمجھتے ہیں ۔ وہ لوگ جو دن بھر ملازمت یا محنت مزدوری کرتے ہیں وہ ان کی وجہ سے رات کو اپنے گھروں میں سو بھی نہیں سکتے ۔گزشتہ ایک دو برسوں میں یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے ۔ ہمارے معاشرے میں عدم برداشت بڑھ رہا ہے ، لوگ نفسیاتی بیماریوں کا مسلسل شکار ہورہے ہیں ۔لوگوں کا اعصابی نظام جواب دے رہا ہے جس میں ایک بہت بڑا حصہ اس صوتی آلودگی کا ہے ۔ یہی مسئلہ بنگلہ دیش کے شہر ڈھاکہ کا بھی تھا جہاں دنیا میں سب سے زیادہ مساجد ہیں ۔ بنگلہ دیشی حکومت نے اذان کے علاوہ لاوڈسپیکر پر مکمل پابندی عائدکردی اور اس پر سختی کے ساتھ عمل درآمد کیا جس کے نتیجے میں اس گنجان آباد شہر میں صوتی آلودگی میں کافی کمی واقع ہوگئی ہے اور ڈھاکہ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق وہاں کے معاشرے میں ایک صحت مند بدلاؤ آیا ہے ۔اس رپورٹ کی رو سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ چند برس کی سخت پابندی کے بعد لوگ خود بخود قانون کی پابندی کرنے لگتے ہیں اور یہ سب لوگوں کی زندگی کا معمول بن جاتا ہے ۔ ہمارے ہاں قانون کوعملی طورپر نافذ نہ کرنے کی وجہ سے بھی اس پر عمل درآمد نہ کرنے میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔ اور اگر اس پر اب توجہ نہ دی گئی تو یہ لاوڈسپیکر بم لوگوں کے اعصابی نظام کو تباہ کرکے رکھ دے گا ۔یہ معاشرہ جہاں لوگوں کو مناسب خوراک ، صاف پانی اور زندگی کی دیگر بنیادی سہولیات میسر نہیں ہیں وہاں ان کو اعصابی اور ذہنی طور پر صوتی آلودگی سے تنگ کرکے جو ظلم ہم کررہے ہیں اس کا نتیجہ آنے والے برسوں میں بہت بھیانک نکلے گا ۔ اس پر فوری توجہ کی ضرورت ہے جو قوانین ہیں ان پر سختی سے عمل درآمد کرنا چاہئیے اور جہاں قانونی سقم ہیں ان کو دور کرکے بنگلہ دیش کی طرح قانون سازی کرکے اس پر مکمل عمل درآمد کیا جائے ۔

مزید پڑھیں:  چاندپر قدم