مہنگائی ،کسی کے قابو میں نہ آئی

عیدین اور رمضان المبارک کے مبارک ایام اور مواقع پر منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کی سرگرمیاں کوئینئی بات نہیں ساتھ ہی حکومتی اداروں کی بے بسی بھی ضرب المثل بن چکی ہے جس کا اس مرتبہ بھی اعادہ کیاگیا۔ تمام تر دعوئوں کے باوجود حکومتی عملداری کی جس طرح دھجیاں اڑائی گئیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں امر واقع یہ ہے کہ پشاور اور اس کے مضافاتی علاقوں میں گوشت کی قیمتوں میں بھی خاص طور پر من مانا اضافہ کیا گیا سب سے زیادہ اضافہ سبزیوں میں آلو اورپیاز کی قیمتوں میں کیا گیا ہے فروٹ کی قیمتوں کو بھی پر لگ گئے ہیں تاجر من مانے نرخ وصول کررہے ہیں قابل توجہ امر یہ بھی ہے کہ ایک طرف لوگ بے تحاشہ خریداری کے لئے بازاروں میں اس طرح امڈ آتے ہیں اور اس تعداد اور کثرت سے خریداری ہوتی ہے اور لوگ مہنگے داموں بھی اشیاء خریدنے پر مجبور ہوتے ہیں کچھ احتراز کی گنجائش ہو بھی تو مہنگائی کے باجود اس پر توجہ نہیں دی جاتی اس نفسیاتی کیفیت کا تجار پوری طرح فائدہ اٹھاتے ہیں اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ رمضان المبارک کے دوران اور عیدالفطر تک ذخیرہ اندوزی کرنے والے اپنا سارا مال نکالنے اور وہ بھی دوگنے دام وصول کرنے کی جو منصوبہ بندی کرکے اس پر عمل پیرا ہوتے ہیں ان کے سامنے حکومت اور انتظامیہ پوری طرح بے بس ہوتی ہے انتظامیہ گراں فروشوں کی خبر لینے کے لئے آرام گاہوں سے باہر نہیں نکلی ہے معاملہ عدالت جانے اورمیڈیا کے شورمچانے پر ایک دو دن نمائشی چھاپوں کے بعد عوام کو مافیا کے رحم وکرم پر چھوڑنے کے پرانے طریقہ کار کا اعادہ ہوگا اور پھر عوام مزید سے مزید مہنگائی کا شکار ہوں گے ۔حکومت کو اس صورتحال پرقابوپانے کے لئے بروقت اقدامات کی ضرورت تھی اب وقت گزر چکا لیکن پھربھی اگر انتظامیہ کی ٹیمیں ہر مارکیٹ جا کر معائنہ کریں اور سرکاری نرخنامے پر عملدرآمد کا کمال دکھا سکیں تو یہ بھی غنیمت ہو گی۔توقع کی جانی چاہئے کہ اس سلسلے میں مزید تاخیر کامظاہرہ نہیں کیا جائے گا اور ذخیرہ اندوزوں وگران فروشوں کے خلاف رمضان کے بعد بھی موثر مہم چلائی جائے گی۔

مزید پڑھیں:  شفافیت کی شرط پراچھی سکیم