امپورٹڈ وزیر خزانہ

ہمارے عوام اس مخمصے میں ہیں وہ خوشی منائیں یاماتم کریں انہوں نے جب سے سنا ہے کہ کچھ غیر سیاسی لوگ سینٹ کے رکن بن رہے ہیں ان میں سے ایک ہمارے وزیر داخلہ ہیں، ایک شاید چئیرمین سینٹ اور ایک کو یقیناوزیر خزانہ بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اب کی بار فیصل ووڈا بھی آزاد سینیٹر بننے جارہے ہیں اور امید یہی ہے کہ انہیں بھی کوئی اہم عہدہ عنایت کیا جائے گا۔ ان سب لوگوں کو ہر ایک سیاسی پارٹی کی بلواسطہ یا بلاواسطہ سپورٹ حاصل ہے۔ اس سے پہلے بھی فارن کوالیفائیڈ وزیر ر خزانہ نے جتنے بھی بجٹ پیش کئے ان میں روٹی کپڑا اور مکان کا خاص طورپر خیال رکھا گیا ہے جس سے ”عوام” خوش بھی ہیں اور یقین بھی ہے آنے والا بجٹ بھی عوامی امنگوں کے ”عین” مطابق ہوگا۔بات اگرمعین قریشی سے شروع کی جائے یا جنرل مشرف کے درآمد شدہ وزیر خزانہ اور بعد میں وزیر اعظم شوکت عزیز سے اور آج تک کے وزیر خزانہ اپنی مرضی یا اپنی پارٹی کی مرضی کا بجٹ بنانا کا سوچ بھی نہیں سکتے کیونکہ تب سے اب تک ہر ایک بجٹ آئی ایم ایف کی مرضی سے ہی بنایا جاتا رہاہے اور آئندہ بھی یہی ہونے جارہاہے۔ آئی ایم ایف نے تو آئندہ بجٹ کے لئے ابھی سے ہدایات دینا شروع کردی ہیں ۔ اس سلسلہ کی کڑی کے طورپروزیر خزانہ کو معیشت کی صورتحال اور اس کے استحکام کے لئے آئندہ منصوبوں کے بارے میں بتایاگیا ۔
بجلی اور گیس کی مہنگائی کے ساتھ ساتھ پیٹرول پر مذید ٹیکس لگانے کے ساتھ ساتھ نئے بجٹ میں نوجوانوں کے لئے روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع کی فراہمی پر بھی خصوصی توجہ دی جائے گی۔ وفاقی حکومت گاہے بگاہے موقع پاتے ہی انکے مالیاتی منتظمین سے کہیںگے کہ وہ اقتصادی استحکام پیدا کرنے اور موثر مالیاتی پالیسیاں تشکیل دینے پر بھی توجہ دیں۔ایسی پالیسیاں مرتب کی جائیں جو اقتصادی استحکام اور کساد بازاری کے خاتمے میں مددگارہوں۔مہنگائی میں کمی عوامی حکومت کی اولین ترجیح ہے،عوامی حکومت کے ہردل عزیز حکومت اپنی سی کوشش کرے گی کہ یہ عندیہ دیا جائے کہ پی ڈی ایم کی تمام کی تمام پارٹیاں اس کارخیر میں شامل رہیں گی۔
ابھی اپریل کا مہینہ شروع ہوا ہے موسم قدرے سرد ہے اور جون بہت دور ہے آج کل سردی کا موسم ہے اور گرمی آنے میں کچھ دیر باقی ہے ۔پاکستان تحریک انصاف اور جمعیت العلماء ف موسم کے گرم ہونے سے سیاست میںگرمی کے خواہاں ہیں۔سیاست میں گرمی آئے نہ آئے موسم گرم سے گرم تر ہورہا ہے اور جیسے جیسے جون کا مہینہ نزدیک آئے گا موسم کی تمازت بڑھتی جائے گی ۔ اس موسم میں ملک عزیز میں درجہ حرارت اپنے نقطہ عروج کو پہنچتا ہے اور اسی موسم میں لوگ گرمی سے بلبلا اٹھتے ہیں یہ مہینہ صرف گرمی ہی نہیں بجٹ کا بھی ہے اور اسی ماہ ہماری حکومت چاہے وہ سیاسی ہو یا کسی آمر کی حکومت ایک بجٹ بناتی ہے جسے حکومت والے عوام کی توقعات کے عین مطابق گردانتے ہیں لیکن عوام سے نہ کبھی پوچھا گیا ہے اور نہ ہی پوچھا جانا ہے ۔عوام کو بجٹ بنانے سے لے کر بجٹ پر عمل درآمد تک کسی بھی چیز میں براہ راست شامل نہیں کیا جاتا ہاں البتہ یہ بجٹ چونکہ عوام کے لئے ہوتا ہے اس لئے عوام کو” لگ پتا” جاتاہے۔یہ بجٹ کی گرمی ہوتی ہے کہ موسم کی کہ عوام غصے سے پاگل ہو جاتے ہیں نہ دن کو آرام ملتا ہے نہ رات کو چین کی کوئی شکل نظر آتی ہے۔ اب کی بار پرچون فروشوں پر بھی ٹیکس لگے گا اس سے پہلے بھی ہر طرف ہو کا عالم ہوتاتھا گلیاں بازار جیسے کسی ویرانے کی طرح معلوم ہوتے تھے ۔ بازار والے رو رہے ہوتے تھے کہ مہنگائی نے ان کے روزگار کو تباہ کردیا ۔ اب اور بھی حالت پتلی ہوگی کوئی بازاروں کا رخ ہی نہیں کرسکے گا لیکن دوسری طرف اگر عوام کے پاس جایا جائے تو سننے کو ملتا ہے کہ مہنگائی نے ان کی کمر توڑدی اور موجودہ بجٹ نے تو انہیں اس قابل ہی نہیں چھوڑا کہ وہ بازار جانا تو درکنار گھروں سے باہر بھی نکل سکیں ۔غریب آدمی سارادن محنت مزدوری کرکے جو کماتا ہے وہ مشکل ان کے بجلی کے بل اور کھانے پینے کے اخراجات پر نکل جاتاہے بازاروں سے لمبی لمبی شاپنگ کرنی اب صرف خواب اور خیال رہ گیاہے۔ہر موسم میں نت نئے کپڑے پہننے والے اب تن بھی ڈھانپ لیں تو بڑی بات ہے ۔ اس ملک خداد میں غریب کی تعداد دن بہ دن برھتی جارہی ہے ۔جو پاکستانی چند سال پہلے کہتا تھا کہ اس کاگزارہ خوب ہورہا ہے اور وہ سفید پوشوں کی طرح زندگی گزار رہا ہے آج وہ بھی اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے میں مگن ہے۔

مزید پڑھیں:  گندم سکینڈل کی تحقیقات