ججز کو دھمکی آمیز خطوط؟

چیف جسٹس ہائی کورٹ سمیت 8ججز کوپائوڈر سے بھرے دھمکی آمیز خطوط موصول ہونے پر پولیس نے ماہرین کو طلب کرکے تحقیقات کا آغاز کردیا ہے اطلاعات کے مطابق دو ججز کے عملے نے خطوط کھولے توان کے اندر پائوڈر موجود تھا ، خطوط کھولنے کے بعد آنکھوں میں جلن شروع ہوگئی ، متاثرہ اہلکار نے فوری طور پر سینٹائزر استعمال کیا اور منہ ہاتھ دھویا ، ایکسپرٹس کی ٹیم فوری طلبی پر اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچی اور معاملے کی تحقیقات شروع کردیں ، عدالتی ذرائع کے مطابق خط کے اندرڈرانے دھمکانے والا نشان بھی موجودتھا ، یہ خطوط کسی خاتون نے بغیر اپنا ایڈریس لکھے ہائی کورٹ ججز کو ارسال کئے یہ خطوط ریشم اہلیہ وقار حسین نامی کسی نامعلوم خاتون کی جانب سے بھیجے گئے ہیں ، ججز کوملنے والے مشکوک خطوط کائونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کر دیئے گئے ہیں خیال ہے کہ مشکوک خطوط ایسے وقت سامنے آئے ہیں جب اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز چند روز قبل جوڈیشل کونسل کو ایک خط میں عدالتی معاملات میںدخل اندازی کا معاملہ ا ٹھایا تھا جس کا سپریم کورٹ نوٹس لے کر پہلے ایک رکنی کمیشن تشکیل دینے کے لئے حکومت کو ہدایت دی تھی اور بنچ کی تشکیل کے بعد اس کے مجوزہ سربراہ نے پہلے رضا مندی کا اظہار کیا تھا مگر بعد میں اس کے ٹی اوآرز کے ساتھ عدم تعاون کرتے ہوئے بنچ کی سربراہی سے انکار کردیا تھا جس کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سووموٹو نوٹس لیتے ہوئے ایک سات رکنی بنچ تشکیل دے کر معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا ، تاہم ابھی اس حوالے سے معاملے کو کسی حتمی انجام تک پہنچانے اور سات رکنی بنچ کے تحت سماعت شروع ہونے سے پہلے ہی مشکوک خطوط سامنے آگئے جن کو خطرے کی گھنٹی قرار دیا جا سکتا ہے اور اصل صورتحال کیا ہے ، خطوط میں جو پائوڈر موجود ہے وہ کس حد تک ضررر رساں ہوسکتا ہے اس حوالے سے تحقیقات مکمل ہونے اور حقائق منظر عام پر آنے کے بعد ہی وثوق کے ساتھ کچھ کہا جا سکے گا ، یاد رہے کہ خطوط کے اندر مضر صحت پائوڈر بھیجے جانے کی وارداتیں چند سال پہلے امریکہ سے شروع ہوئی تھیں اور اس مسئلے سے بہت غلغلہ مچا تھا ، پھر کچھ دیگر ممالک میں بھی ایسی وارداتیں ہوئی تھیں ، جن کی وجہ سے دنیا بھر میں بہت سنسنی پھیلی تھی اگرچہ محولہ خطوط کے اندر موجود کیمیکل(پائوڈر) سے کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں آئی تھی بس ایک خوف کی سی کیفیت طاری ہوگئی تھی ، جس کے بعد یہ معاملہ دب گیا تھا اور دنیا میں کہیں سے بھی مشکوک کیمیکل پرمبنی پائوڈر بھرے خطوط ایک افسانہ بن کر رہ گئے تھے ،مگر اب ایک مدت بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے تمام ججز کو پائوڈر بھرے خطوط ملنے سے جو صورتحال پیدا ہوئی ہے ، وہ یقینا قابل تشویش امر ہے اور اس کی مکمل تحقیقات ہونی چاہئیں ،اور اس بات کاتعین ہونا چاہئے کہ ان خطوط میں موجود پائوڈر کسی معمولی نوعیت کا وقتی جلن پیدا کرنے کا باعث بنتا تھا یا اس کے جسم اور چہرے پرخطرناک ، دور رس اثرات مرتب ہونے کے امکانات اور خطرات موجود ہیں اور یہ خطوط بھیجنے کے پیچھے اصل محرکات اور وجوہات کیا ہیں ، آیا ان کا محولہ چھ ججز کی جانب سے حالیہ دنوں میں جوڈیشل کونسل کو بھیجے جانے والی شکایات کے ساتھ کچھ تعلق بنتا ہے یا پھر خطوط ارسال کرنے والے کا مقصد ملک میں کسی عمومی خوف و ہراس پیدا کرنا ہے ، یہ بات تو بہرحال قرین قیاس ہے کہ جس خاتون کے نام سے یہ خطوط ارسال کئے گئے ہیں وہ ایک جعلی نام ہی ہوسکتا ہے اور اصل شخص نے خود کو پردہ احفا ہی میں رکھا ہوگا ، تاہم اصل محرک کو تلاش کرنا متتعلقہ انٹیلی جنس حکام کی ذمہ داری ہے اور اس کا آغاز ان خطوط کے لفافوں پر جس ڈاک خانے کی مہر ہوگی وہیں سے اس کا سراغ لگانے میں مدد مل سکتی ہے کیونکہ یہ بات تو ایک اصول کے طور پر تسلیم کی جاتی ہے کہ جرم کرنے والا کتنا ہی چالاک کیوں نہ ہووہ اپنے پیچھے کوئی نہ کوئی سراغ چھوڑ ہی جاتا ہے اور اسی سے تحقیقاتی ادارے ماہر کھوجیوں کی مدد سے بالاخر مجرم تک پہنچ ہی جاتے ہیں ، اس لئے اب یہ متعلقہ اداروں اور ان میں موجود ماہرین کی ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف اس پائوڈر کی حقیقت سامنے لائیں بلکہ ان خطوط کو ارسال کرنے والے کے چہرے سے نقاب کھینچ کر اس کو سامنے لے آئیں۔

مزید پڑھیں:  شفافیت کی شرط پراچھی سکیم