ہوائی فائرنگ کی لعنت

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سردار علی امین گنڈاپور نے شہریوں سے چاند رات پر ہوائی فائرنگ سے گریز کرنے کی اپیل کی ہے اور کہا ہے کہ چاند رات اور عید کے موقع پر ہوائی فائرنگ سے مکمل اجتناب کیا جائے۔ ہوائی فائرنگ ایک خطرناک رحجان اور قبیح عادت بلکہ اخلاقی و نفسیاتی بیماری ہے بدقسمتی سے خیبر پختونخوا کے معاشرے میں اس کا رحجان سب سے زیادہ ہے عید کے موقع پر کرکٹ میچ جیتنے کی خوشی میں بیٹا پیدا ہونے پر شادی و بارات کے موقع پر یہاں تک کہ غم غلط کرنے کے لئے بھی اسلحہ کا ٹریگر دبا کر جو لوگ اطمینان محسوس کرتے ہیں موت اور آگ کاکھیل جن لوگوں کو بھاتا ہے ان کی تربیت شخصیت اور ذہنیت کے بارے میں برا سوچنے کا حق اس لئے حاصل ہے کہ یہ ان کی ذات تک کا فعل و عمل نہیں بلکہ معاشرے اڑوس پڑوس قرب وجوار اور علاقہ و قریہ تک سبھی پر اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں اس کے خطرات سے خطرہ ہے جب ایک انسانیت کی جان بچانا پوری انسانیت کو بچانا ہے تو پھر ایک انسان کا قتل بھی پورے معاشرے اور انسانیت کے قتل اور اس کے مٹانے کا عمل ٹھہرتا ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی فائرنگ کا مقصد کیا ہے اور یہ عمل کس بات کی نشاندہی کرتا ہے؟ کیونکہ عام حالات میں تو اس طرح فائرنگ کرنا ممکن نہیں ہوتا تو ایسے تہواروں یا مواقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگ اس عمل کا اجتماعی طور آغاز کردیتے ہیں۔ کیونکہ عام طور پر پولیس ایسے مواقع پر اس عمل کو نظر انداز کردیتی ہے اور بغیر کسی شکایت کے نوٹس لینے سے گریز کرتی ہے۔ خیبر پختونخوا میں اس جرم کی سزا کا قانون بھی موجود ہے پولیس اور انتظامیہ ہوائی فائرنگ کی ممانعت اور سخت کارروائی کا انتباہ بھی جاری کرتی ہے مگر عملاً کچھ نہیں ہوتا کوئی ٹھوس کارروائی نہیں ہوتی حکومتی عملداری کے قیام اور نفاذ قانون کے لئے کوئی ٹھوس اور سخت اقدامات نہ ہوں تو یہ مذاق بن کر رہ جاتے ہیں اور جو چیز مذاق بن جائے اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور ایسا ہی ہو رہا ہے ۔اولاً قانون ہی ڈھیلا ڈھالا ہو پھر اس کا نفاذ کمزور ہو اور جب مقدمہ بن بھی جائے مگراسے ثابت کرنے اور فیصلہ تک کا عمل چھلنی اور غلبیل جیسا ہو تو مطلوب فضا ء ہی پیدا نہیں ہو گی جو اس طرح کی ذہنیت کے لوگوں کے لئے روک کا ذریعہ بن کے اخلاقیات ‘ شرافت دوسروں کی زندگیوں کے تحفظ اور ان کو خطرے میں ڈالنے سے گریز کرنے جیسے عمل کی تو اس سطح کے لوگوں سے توقع ہی عبث ہے ان کا علاج لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے معاشرتی دبائو اور بروقت مداخلت ہی سے ہوسکتا ہے دوسری کوئی صورت موثر و کارگر شاید ہی ہو البتہ اگر ماں کی گود ‘بچپن ہی سے اس ذہنیت کو بدلنے کی سعی ہو سکولوں ‘ کالجوں اور جامعات میں اس لعنت کی تباہ کاریوں اور قبیحیت کے حوالے سے ذہن سازی کی جائے معاشرے میں اس سرگرمی کو برا اور قابل اعتراض بنانے کے لئے کوششیں ہوں اور ہر سطح پر ہر طریقے سے اس کے تدارک کی مساعی ہوں تویہ اس لعنت کی روک تھام میں مدد گار عمل ثابت ہو سکتا ہے اس کی ابتداء کھلونا بندوقوں ‘ کھلونا پستول پٹاخوں اور دھماکہ خیز و اسلحہ نما چیزوں سے کھیلنے کے عادی ہونے کی روک تھام کے طور پر ان چیزوں سے متعارف ہی ہونے نہ دیا جائے ان اشیاء کی تیاری اور مارکیٹ میں موجودگی بازار سے ان چیزوں کی خریداری ہی کے مواقع مسدود کئے جائیں تبھی انسداد ہوائی فائرنگ کے لئے اسے سنجیدہ قدم قرار دیا جا سکے گا۔ بلاشبہ ان واقعات کی ذمہ داری قریبی پولیس اسٹیشن کی ہے جہاں اکثر اہلکار گشت کے نام پر موقع سے غائب رہتے ہیں۔ اگر یہ لوگ قانون کی خاطر موقع پر موجود اور چوکس رہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ کسی بھی علاقے میں اس قسم کے واقعات رونما نہ ہوں۔ تھانوں میں اسلحہ رکھنے والوں کا مکمل ریکارڈ موجود ہوتا ہے اس کی باقاعدہ پڑتال ہونا چاہئے جبکہ غیر قانونی اسلحہ رکھنے والوں سے بلا امتیاز قانون کے مطابق نمٹنا پولیس حکام کی ترجیحات میں شامل ہونا چاہئے۔ قانون توڑنے والے اور جرائم پیشہ افراد کی معاشرے میں کہیں جگہ نہیں، ان جرائم پر پردہ ڈالنے والے پولیس اہلکاروں سے بھی سختی سے باز پرس ہونا چاہئے۔

مزید پڑھیں:  مذاکرات ،سیاسی تقطیب سے نکلنے کا راستہ