عید کارڈوں کی بھولی بسری روایت

آج کے دورنے تو بچوں کے عید کارڈ کے بارے میں صرف سنا ہی ہوگا کم کم نے دیکھا بھی ہو گا یادش بخیر ایک دور تھا جب عید کارڈ بھیجے اور وصول کئے بغیر عید کا تصور بھی نہیں تھا۔رمضان کے دوسرے عشرے سے ہی بازاروں میں قسم قسم کے عید کارڈ سجنے لگتے اور پسند کے عید کارڈ لینے بازاروں کے چکر شروع ہوجاتے ان عید کارڈوں کی چھپائی بھی منفرد ہوتی اکثر ان کارڈوں پر پھولوں کی خوبصورت اور قدرتی مناظر کی دلکش تصویریں ہوتیں کچھ میں جدا گانہ احساس پیدا کرنے والے تصوراتی پیٹنگ اور کچھ کارڈ جذبات کے اظہار کاایسا ذریعہ ہوتے کہ کچھ نہ کہا اور کہہ بھی گئے کچھ میں ایسے اشعار لکھے ہوتے جس میں دبے لفظوں میں اظہار محبت گلہ مندی اورہجر ووصل کا بیان ہوتا بہتے آنسوئوں اور جلی ہوئی موم بتی سے ٹپکتی موم دل جلوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے بچھڑنے والوں کے جذبات کی ترجمانی آنسوئوں والے کارڈوں سے ہوتی عید کارڈ صرف جوانسال لوگ ہی نہیں ہر عمر کے لوگ بھیجتے بچوں کے عید کارڈ معصومیت بھرے ہوتے کچھ بچے خود کچھ اپنے بڑوں سے عید کارڈ لکھوا کر ہمجولیوں کو دیتے سرکاری دفاتر اور اداروں کے اپنے پرنٹ شدہ عید کارڈ ہوتے صدر ، وزیر اعظم ، گورنر ، وزارائے اعلیٰ اور صوبائی وزراء غرض ہر محکمے اور ادارے میں اس کے اہتمام کی کوشش ہوتی ذاتی طور پر عید کارڈ ارسال کرنے اور روصول کرنے کا ایک سماں بندھا ہوتا عید کے دن ہر کسی کے گھر کے کونے پر ملنے والے عید کارڈ سجے ہوتے عید کارڈ پیار محبت خلوص اور تعلقات عامہ کا ذریعہ ہوتے تھے اس موقع پر ڈاکخانوں میں کام بڑھ جاتا تھا عید کارڈ گہری دوستی کی علامت ہوا کرتے تھے نوجوانوں میں عید کارڈوں کی گنتی ہوتی اور زیادہ کارڈ ملنے پر خوشیاں منائی جاتیں عید کارڈ بھیجنے اور وصولی کا واحد زریعہ ڈاکخانہ اور ڈاکیہ ہوتے تھے عید کارڈ اکثر رمضان کے دوسرے عشرے کے شروع تک بھیجے جاتے اور وصولی بھی تقریباً انہی دنوں میں شروع ہو جاتی اب نہ وہ عیدیں رہیں اور نہ عید کارڈ زمانہ بدل گیا آج کی نوجوان نسل اسے متروک تو کر ہی چکی فرسودہ بھی سمجھتی ہوگی کہ کون بازار جائے اور عید کارڈ خریدے پھر اس پر لکھائی ونقش ونگار کرکے ڈاکخانے جا کر ٹکٹ لگا کر سپرد ڈاک کرے جس کے پہنچنے نہ پہنچنے کا بھی بروقت پتہ نہ چل سکے وہ ان جذبات و احساسات کو بھی نہیں سمجھ سکتی جو اس کارڈ کے ذریعے بھیجے اور وصول کئے جاتے وہ عید کارڈ کا ملنا ڈاکیہ کا دروازہ کھٹکھٹا کرعید کارڈ تھمانا جس کے نام عید کارڈ آیا ہو باقی بہن بھائیوں کی اس پر رشک بعض عید کارڈ ایسے بھی ہوا کرتے تھے کہ اس کا انتظار رہتا کہ کسی کے ہاتھ نہ لگ جائے غرض قسم قسم کے جذبات و احساسات کی ایک بند گٹھری ہوتی تھی جسے اس طرح کے جذبات و احساسات کے ساتھ وصول کرنے اور اسی جذبات کے ساتھ کھولنا پڑھنا چومنا گلے لگانا اور محفوظ کرنا مروج تھا آج کا دور آسان تیز رفتار فوری ارسال اور فوری ملتے اور فوری دیکھنے اور جواب دینے کا ہے اب الیکٹرانک عید کارڈ ایک کلک کی دوری پر ہیں اور وہ بھی نت نئی ڈیزائن اور رنگوں کے الیکٹرانک عید کارڈ کے دستی فون سے لے کر بس نمبر لا کر بٹن دبا دیا اور اگلے کو مل بھی گیا لیکن یہ جذبات کی دنیا سے دور اور محض رسمی اور پھیکی سی ہی ہے اور اس کا جواب بھی اسی طرح سے ہی لیا جاتا ہے اب تو مہارت اتنی ہو گئی ہے کہ ہر کوئی خود اپنی مرضی کا ڈیزائن بنا کر مرضی کی لکھائی کرسکتا ہے یہ تو اہتمام والے کارڈوں کی بات ہے ورنہ اتنی بھی کشٹ اٹھانے کی ضرورت نہیں ۔ دور جدید کے عید کار دلکش دیدہ زیب رنگین اور برق رفتاری سے وصول ہونے والے ہیں جن کو بس ایک نظر سکرین پر دیکھ کر کوئی تیار کارڈ بس فاروڈ کر دیا اور بس یہ کارڈ نہ کسی کودکھانے کے کام آتے ہیں اور نہ ہی ان کارڈوں کو گھر کے کسی کونے میں تادیرمحبت سے سجا کر بھیجنے والے کی یاد کی خوشبو محسوس کی جاسکتی ہے نیز رفتار زمانے کی برق رفتاری اور لمحہ بھر کی یاد اور محو اور بس۔اب ان کارڈوں میں محبتوں کی گواہی ، رشتوں کونہ بھولنے کا احساس ، محبت اور الفت میں نازو ادا سے گوندھی ہوئی تحریریں ، شبنم کی طرح ٹھنڈی میٹھی قربتیں تخیل ہی میں سرشار کردیتی دوریوں میں بھی رشتوں کو نہ بھولنے کا احساس جیسے جذبات کی خوشبو ہی نہیں رنگین دلکش مگر پھیکے سطحی اور لطیف احساسات اور جذبات سے عاری بے جان برصغیر میں عید کارڈوں کی روایت لگ بھگ کم و بیش ایک صدی رہی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں عید کارڈ بھیجنے کی روایت کا آغاز 19ویں صدی کے آخر ی سالوں میں ہوا ویسے توکئی ثروت مند مسلمان گھرانے صدیوں سے سجاوٹ والے خطاطی شدہ پیغامات بھیجا کرتے تھے لیکن عید کارڈز کی وسیع پیمانے پر دستیابی اور ان کا ڈاک سے بھیجے جانے کا کارواج 19ویں صدی کے اواخر میں شروع ہوا جو اب جدید زمانے کی تیز رفتار پیغام رسانی کے ذرائع کی نذر ہوگئے اور یہ روشن باب بند ہوا۔ صرف عید کارڈ کی روایت ختم ہوتی تو بھی افسردگی کی بات نہ تھی اب دیکھو تو عید کی خوشیاں ہی پھیکی پڑ گئی ہیں اور عید و رمضان بھی رسوم کی بھینٹ چڑھتی جارہی ہیں نوجوانوں اور بچوں بلکہ خواتین کا بھی رات بھر جاگنا اور دن بھر سو کر روزہ گزارنا عام ہو گیا ہے پھر چاند رات کی وجہ رسم بد شروع ہوئی ہے کہ مہینہ بھر روزہ رکھ کر جو پاکیزگی حاصل ہوئی تھی چاند رات کو بازاروں میں وہ شور و غل اور ہلڑ بازی سارے مہینے کی مشقت ایک رات کی نذر ہوجاتی ہے عید پر ہر کسی کے جوڑے دو جوڑے کپڑے جوتے ہوتے ہی ہیں اب نئے کپڑوں اور جوتوں کی خوشی بھی رخصت ہو گئی ہے عید پر رسمی اورپھیکی مسکراہٹ اور سرسری سی ملاقاتیں بس یہی ہماری عید رہ گئی ہے ۔یہاں ہم اپنی عید کی بات کر گئے تصور میں بھی اہل غزہ کی عید آئے تو پھر عید نہیں ماتم کرنی چاہئے سم کے ایک حصے کو تکلیف ہو تو باقی کا عید منانا کیسا؟۔

مزید پڑھیں:  مذاکرات ،سیاسی تقطیب سے نکلنے کا راستہ