باپ نے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے شہر کی یونیورسٹی بھیجا۔ اب وہ ہر ماہ مشکل سے پیسے بچاتا اور بیٹے کو بھیجتا تاکہ اس کی پڑھائی میں کوئی خلل نہ آئے۔ یہ سلسلہ کئی سال تک چلتا رہا، آخر وہ دن آن پہنچا کہ بیٹا اعلیٰ ڈگری کیساتھ گاؤں واپس لوٹ آیا۔ باپ کو یقین تھا کہ اب وہ اس کے ناتواں کندھوں کا سہارا بنے گا اور گاؤں کی معاشرتی ترقی میں اپنا حصہ ڈالے گا۔ ایک دن عصر کے وقت باپ بیٹا صحن میں چارپائی پر بیٹھے تھے کہ ایک کوّا گھر کی منڈیر پر آبیٹھا۔ باپ نے کوّے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔ ”بیٹا! وہ کیا چیز ہے؟” بیٹے نے جواب دیا کہ کوّا ہے۔ چند لمحوں بعد باپ نے بیٹے سے پھر پوچھا۔ ”بیٹا! وہ کیا چیز ہے؟” بیٹے نے کہا کہ کوّا بیٹھا ہے۔ چند لمحوں بعد باپ نے وہی سوال کیا۔ بیٹے کو اب باپ کا سوال ناگوار گزرا اور ذرا تلخ لہجے میں کہا کہ دو دفعہ بتا چکا ہوں کہ کوّا بیٹھا ہے۔ جب چوتھی بار باپ نے پوچھا تو بیٹے کو غصہ آیا اور بدتہذیب لہجے میں بولا کہ بتایا تو ہے کہ کوّا ہے۔ باپ چارپائی سے اُٹھا اور کمرے میں چلا گیا، الماری کھولی اور ایک بیس برس پُرانی ڈائری نکالی۔ ڈائری کھولی اور اس کا ایک ورق اپنے بیٹے کو اونچا پڑھنے کو کہا۔ ڈائری کے اُس ورق پر لکھا تھا کہ آج میں اپنے چھوٹے بیٹے کیساتھ صحن میں بیٹھا تھا کہ ایک کوّا گھر کی منڈیر پر آبیٹھا۔ میرے بیٹے نے پچیس مرتبہ پوچھا کہ منڈیر پر کیا چیز بیٹھی ہے اور میں نے پچیس مرتبہ نہایت تحمل سے جواب دیا کہ کوّا بیٹھا ہے۔ یہ واقعہ ہماری تربیت سے عاری تعلیمی نظام کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج معاشرے میں ہمیں تعلیم کہیں نظر نہیں آتی۔ ترقی یافتہ اقوام کی فہرست پر نظر دوڑائیں تو وہاں سکولوں اور یونیورسٹیوں میں حقیقی معنوں میں تعلیم دی جاتی ہے اور تربیت سکھائی جاتی ہے۔ اسلئے وہاں تمام ادارے صحیح سمت کام کرتے اور اپنے معاشروں کی تعمیر وترقی میں اپنا اہم کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ جاپان کی مثال لیں، وہاں تیسری جماعت تک بچوں کو ایک مضمون سکھایا جاتا ہے اور وہ اخلاقیات ہے۔ آپۖ کا ارشاد گرامی ہے۔ ”میرے یہاں تم میں سے سب سے محبوب شخص حسنِ اخلاق سے متصف شخص ہے” (صحیح بخاری)۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ جس میں ادب نہیں، اس میں دین نہیں۔ پس علم کے معنی ”جاننا” اور اس علم کا استعمال ”ادب واخلاق” ہیں۔ ہمارے تعلیمی نصاب میں جماعت اول سے لیکر جماعت دہم تک معاشرتی علوم شامل ہے جس کو بدقسمتی سے ہم سکھانے کے بجائے رٹواتے ہیں اور اس کے ثمرات صبح سے شام تک گھروں، محلوں، بازاروں، ہسپتالوں، ٹی وی چینلوں، سوشل میڈیا، قومی اسمبلی، سینیٹ وغیرہ میں لڑائی جھگڑوں، بے ہودہ باتوں اور بے مقصد مباحثوں کی صورت میں نظر آتے ہیں۔ الغرض ہمیں اپنے معاشرے میں تعلیم کہیں نظر نہیں آتی ہے۔ سننے میں آرہا ہے کہ حکومت محکمہ تعلیم کا نام ”محکمہ تعلیم وتربیت” رکھنے جا رہی ہے۔ یہ بات اگرچہ صرف اخباری بیانات تک محدود ہے لیکن مجھے ذاتی طور پر نام کی یہ تبدیلی بالکل سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔ بظاہر ایک عام اور کم پڑھا لکھا طبقہ اس تبدیلی کو سراہے گا کیونکہ وہ تعلیم کے حقیقی معنی ومفہوم سے ناواقف ونابلد ہے۔ اُس کو معاشرے میں جو ڈگریاں نظر آتی ہیں اُن کو وہ تعلیم سمجھتا ہے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ معاشرے میں تربیت کا فقدان ہی فقدان ہے کیونکہ ہم نے تعلیم سے تربیت کا پہلو نکال باہر کردیا ہے اور اس کو معاشرے میں تلاش کر رہے ہیں۔ یہی وہ غلطی ہے جس کو ہم سمجھتے ہیں اور نہ ہی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب شاید محکمے کا نام ”تعلیم وتربیت” رکھنے سے دونوں یکجا ہو جائیں۔ درحقیقت تعلیم وتربیت دو علیٰحدہ چیزیں نہیں ہیں لیکن بدقسمتی سے ہم نے ان کو جدا کر دیا ہے اور ان کو الگ الگ نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں۔ اسلام وہ واحد مذہب ہے جس نے تعلیم کو تمام انسانوں پر فرض قرار دیا ہے اور اس فرض کے حصول اور انجام دہی کو ایک دینی فریضہ قرار دیا ہے۔ اسلام نے جہاں تعلیم کو تمام انسانیت کیلئے فرض کیا تو وہاں کچھ بنیادی سنہرے اُصول بھی بتلائے۔ اول، اسلامی نقطہ نگاہ سے تعلیم وتربیت ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں یعنی تعلیم کتاب وحکمت اور تزکیہ نفس دونوں کی انجام دہی کا نام ہے۔ جیسا کہ قرآن پاک میں رسول اکرمۖ کے کردار کے حوالے سے ان دونوں پہلوؤں کو ایک جامع انداز میں بیان کر دیا گیا ہے۔ فرمان ایزدی ہے۔ ”وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا کہ ان پر اس کی آیتیں پڑھتے ہیں اور انہیں پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب وحکمت کا علم عطا کرتے ہیں” پس تربیت کے بغیر تعلیم جہالت بڑھانے کے سوا کچھ نہیں کرتی۔ دوم، تعلیم کا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ وہ طالب علم میں اسلامی عقائد اور ان کے انفرادی واجتماعی اثرات، اسلامی تہذیب وثقافت اور مقصد حیات سے آگاہی پیدا کرے۔ سوم، موجودہ دور میں لبرل ازم نے تعلیم اور مذہب کے درمیان ایک لائن کھینچ دی ہے جس نے طالب علم کو اخلاق وکردار کی نشوونما میں آزادکر دیا ہے جبکہ اسلامی نظریہ تعلیم طالب علم کی انفرادی اور اجتماعی دونوں پہلوؤں میں توازن پیدا کرکے اسے معاشرے کا ایک ذمہ دار فرد بناتی ہے۔ چہارم، تعلیم کا بنیادی مقصد طالب علم کا تعمیری کردار ہونا چاہئے۔ یہ تب ہی ممکن ہے کہ جب طالب علم آپۖ اور صحابہ کرام کی مثالی زندگیوں کا گہرائی سے مطالعہ کرے۔ جیساکہ قرآن پاک میں ارشاد ہے ”تمہارے لئے رسول اللہۖ کی زندگی بہترین نمونہ ہے” پس یہ وہ بنیادی اور سنہری اُصول ہیں جن پر اگر تعلیم کی بنیاد رکھی جائے تو وہ جہالت وتاریکی سے علم وروشنی کا سبب بنے گی۔