p613 199

کورونا، سختی کے بغیر چارہ نہیں

خیبر پختونخوا میں ہیلتھ ایمرجنسی کی مدت میں اگلے سال30مارچ تک کی توسیع کردی گئی ہے، تاریخ کی سب سے طویل ایمرجنسی ہوگی جس کا عرصہ ایک سال پرمحیط ہوگا۔ امر واقع یہ ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلنے کی وجہ سے وبائی صورتحال میں صوبائی حکومت نے رواں برس مارچ کے وسط میں ایمرجنسی کا نفاذ کیا تھا۔ اس ایمرجنسی کیساتھ خیبر پختونخوا اپیڈیمک کنٹرول اینڈ ایمرجنسی ریلیف ایکٹ 2020اور ڈیزیز سرولنس اینڈ رسپانس ایکٹ2017بھی لاگو رہیں گے جس کے تحت انتظامیہ کو ایس اوپیز کی خلاف ورزی اور وائرس کے پھیلائو میں مددگار ہونے پر کارروائی کا اختیار حاصل رہے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ صورتحال کے تناظر میں ایمرجنسی میں توسیع ناگزیر تھی لیکن ایمر جنسی کے نفاذکیساتھ جن اقدامات اورعوامل کی ضرورت ہے بدقسمتی سے اس حوالے سے حکومت اور عوام کے مختلف طبقات سبھی کی جانب سے غیرسنجیدگی اور احتیاط کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جارہا ہے جس سے ایمرجنسی کا نفاذ اور یہ عمل لاحاصل ہونے کا خطرہ ہے۔اس امر کے اعادے کی ضرورت نہیں کہ لوگ بازاروں، بی آرٹی اور دیگر پبلک مقامات پر ماسک پہننے کی زحمت تک گوارا نہیں کرتے۔ ایک دوسرے سے مناسب فاصلہ رکھنے کی تو اکثر مقامات اور مواقع پر گنجائش ہی نہیں، بازاروں میں کھوے سے کھوا چھلتا ہے تو بی آرٹی سٹیشنوں پر عوام کی آمد ورفت مناسب فاصلہ رکھ کر ممکن ہی نہیں، نیز سب سے تکلیف دہ اور حیران کن امر بی آرٹی بسوں میں بعض مسافروں کی جانب سے ماسک کی پابندی نہ کرنا ہے، یہ عمل خطرناک اورنا قابل برداشت ہوتا جارہا ہے جس کی روک تھام کیلئے ضلعی انتظامیہ اور بی آرٹی کے عملے سبھی کو کردار ادا کرنا ہوگا۔ ایمرجنسی ریلیف ایکٹ کے تحت ایس اوپیز کی خلاف ورزی پر کارروائی کے اختیار کو صرف اجازت کی حد تک رکھا جارہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس اختیار کو لاگو کرنے پر سنجیدگی سے توجہ دی جائے اور خلاف ورزی پر تلے ہوئے لوگوں پر اس کو سختی سے لاگو کرنے میں تامل نہ کیا جائے۔عوام کو ترغیب و تنبیہ کیلئے ایک بھرپور مہم کی ضرورت ہے۔ ذرائع ابلاغ کیساتھ ساتھ بی آرٹی بسوں میں اور جہاں جہاں جس جس ذریعے سے ممکن ہو اس طریقہ کار کو سنجیدگی سے اختیار کیا جائے۔
بیس سال سے بند سکول
1990کی دھائی میں مکمل ہونے والا گورنمنٹ گرلز مڈل سکول دھندیا گا ئوں لوندخوڑ میں بیس سال بعد بھی تدریس کا آغاز نہ ہونا ناقابل یقین امر ہے۔ ہمارے نمائندے کے مطابق غیر ترقیاتی فنڈز سے 12 لاکھ میں تعمیر ہونے والے بدقسمت سکول کو کھولنے کی منظوری پی اینڈ ڈی ڈیپارٹمنٹ خیبر پختونخوا سے نہ مل سکی۔ پسماندہ دیہاتی علاقے کے عوام بار بار کے مطالبات سے تھک ہار کر بیٹھ گئے ہیں۔ پرائمری پاس کرنے کے بعد چھ دیہاتی علاقوں کی بچیاں گا ئوں سے 4،5 کلومیٹر دور موسمی حالات کے باوجودسکول جانے پر مجبور ہیں۔ گائوں کاگرلز پرائمری سکول بھی خستہ حالی کا شکار ہے جس میں طالبات کی تعداد گھٹ کر70بچیوں اور دو استانیوں تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ فرش بندی،پانی، لیٹرین اور دیگر ضروریات نہ ہونے کی وجہ سے وہ بھی مستقل بند ہونے کے قریب ہے۔پندرہ سو گھرانوں پر مشتمل گائوں میں سکول کی عمارت کو کن تکنیکی اورقانونی وجوہات کی بناء پر تعلیمی مقاصد کیلئے استعمال میں لانے کی اجازت نہیں مل رہی ہے اس حوالے سے درست معلومات دستیاب نہیں، بہرحال جو بھی وجوہات ہوں سکول کی عمارت کی تعمیر کے بعد اس امر کا کوئی جواز نہیں کہ پی این ڈی اس کی اجازت نہ دے۔بیس سال میں ایک نسل سکول سے فارغ التحصیل ہونی چاہئے تھی مگر سرکاری قواعد کی بھول بھلیوں کی سزا علاقے کی بچیوں کو مل رہی ہے۔وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کو اس مسئلے کا فوری نوٹس لینا چاہئے اور جو بھی رکاوٹیں ہوں ان کو دور کر کے سکول فوری طور پر محکمہ تعلیم کے حوالے کیا جائے اور جلد سے جلد اساتذہ کی تقرری کر کے کلاسوں کے آغاز کیلئے انتظامات کئے جائیں۔
اقلیتی برادری اور خصوصی افراد کیلئے احسن منصوبہ
خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے اقلیتی برادری کے نوجوانوں،بیوائوںاور جسمانی معذور افراد کیلئے باعزت روزگار شروع کرنے کیلئے خصوصی گرانٹ کی فراہمی کا منصوبہ قابل قدر اقدام ہے۔ منصوبہ کے تحت رواں برس184کاروبار شروع کئے جائیں گے ۔ رواں برس منصوبے کے تحت 127افراد کو بندوبستی اضلاع جبکہ57افراد کو ضم شدہ اضلاع میں اپنا کاروبار شروع کرنے کیلئے گرانٹ دی جائے گی۔ گرانٹ کی ادائیگی سے قبل کاروبارکی نوعیت کا جائزہ لیا جائے گا، حکومت اس احسن منصوبے پر عملدرآمد کیساتھ ساتھ خصوصی افراد کو مناسب مشورہ اور تربیت فراہم کرے، کاروبار کو کامیاب بنانے کے بھی اقدامات کئے جائیں جس کاروبار میں حکومتی تعاون کی ضرورت ہو وہاں رولز میں نرمی کر کے بھی خصوصی افراد کو رعایت اور مدد فراہم کی جائے تو بھی نامناسب نہ ہوگا۔

مزید پڑھیں:  حکومت کیلئے کام مت دیکھیں