p613 201

کورونا کو سنجیدہ کیوں نہیں لیا جاتا؟

خیبر پختونخوا میں گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران پشاور میں 3 افراد کورونا وائرس کے باعث جان کی بازی ہارگئے اورمختلف اضلاع سے مزید218افرادوائرس سے متاثر ہونے کی بھی تصدیق ہوئی ہے۔ بنوں ہسپتال کے ایڈیشنل ڈائریکٹر کے کورونا سے جاں بحق ہونے کے بعد خیبر پختونخوا میں رواں سال اپریل سے گزشتہ روز تک ہسپتالوں کے جاں بحق ہونے والے طبی عملے کی تعداد 40ہوگئی ہے، کورونا سے مر نے والوں میں25 ڈاکٹرز، 6پیرامیڈیکس، 4 نرسز اور پانچ کلاس فور ملازمین شامل بتائے گئے ہیں۔ مذکورہ جاں بحق طبی سٹاف میں ابھی تک صرف ایک ڈاکٹر کو بعد ازمرگ سرکاری سطح پر اعزاز کیلئے نامزد کیا گیا ہے اور باقی ملازمین کیلئے تاحال کسی قسم کے پیکیج کا اعلان تک نہیں کیا گیا ہے۔ دریں اثناء کورونا سے پیدا ہونیوالی صورتحال کے پیش نظر لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں داخل کئے جانے والے مریضوں میں کورونا کی تشخیصی شرح کنٹرول سے باہر ہوگئی ہے اس وجہ سے ہسپتال میں مزید نئے داخلے بند کردئیے گئے ہیں۔ ہسپتالوں کے وارڈز میں مختص بستروں کے صرف50فیصد بستروں پر مریضوں کو علاج دیا جائے گا، آپریشن اور ٹیسٹ اور ایکسریز کا نظام معطل جبکہ باقی تمام بیماریوں کے مریضوں کا داخلہ تاحکم ثانی کیلئے بند رہے گا جبکہ خیبر پختونخوا حکومت نے کورونا وائرس پھیلائو کے پیش نظر ریسٹورنٹ ، ہوٹلوں میں کھانے اور جیلوں میں ملاقات پر پابندی عائد کردی ہے۔ پابندی کا اطلاق غیرمعینہ مدت کیلئے ہوگا۔ اس حوالے سے محکمہ داخلہ نے باقاعدہ حکمنامہ جاری کردیا ہے۔ خیبرپختونخوا میں محولہ صورتحال اس امر کا اندازہ لگانے کیلئے کافی سے زیادہ ہے کہ صوبے میں کورونا کی صورتحال کس حد تک تشویشناک ہو چکی ہے۔ اس کے باوجود احتیاطی تدابیر اختیار کرنے میں لوگوں کی غفلت کو کیا نام دیا جائے سوائے اس کے کہ ہمارے لوگ شاید اب بھی اس مہلک بیماری کو سنجیدگی سے نہیں لیتے یا پھر وہ اس پراپیگنڈے کے زیراثر ہیںجس میں اس وباء کے حوالے سے شکوک وشبہات کا اظہار کیا جاتا ہے بلکہ اسے وباء تسلیم کرنے کی بجائے اسے جھوٹ قرار دیا جاتا ہے یہ ایک نہایت پریشان کن امر ہے۔ انتظامیہ کی جانب سے سمارٹ لاک ڈاؤن درست اقدام ہے لیکن انتظامیہ کا حفاظتی تدابیر اختیار نہ کرنے والوں کے حوالے سے نرم رویہ اور کارروائی سے گریز ناقابل فہم ہے جس کی مزید گنجائش نہیں۔ کورونا کی وباء سے محفوظ رہنے کیلئے سنجیدگی سے حفاظتی تدابیر اختیار کرنے پر توجہ دینے میں مزید تاخیر نہ کی جائے۔
وزیراعلیٰ کو یقین دہانی کے باوجود گیس کی لوڈشیڈنگ
پشاور کے علاقہ سواتی گیٹ، گلبرگ اور ملحقہ علاقوں میں گیس لوڈشیڈنگ نے علاقہ مکینوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ سواتی گیٹ، گلبرگ اور ملحقہ علاقوں کے عوام نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ علاقہ میں جاری گیس کی ناروا لوڈ شیڈنگ کے خاتمہ کیلئے فی الفور اقدامات اُٹھائے جائیں بصورت دیگر احتجاج پر مجبور ہوں گے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان سے ایس این جی پی ایل کے صوبائی حکام کی ملاقات اور صوبے میں گیس کی کہیں بھی لوڈشیڈنگ نہ ہونے کے علاوہ صوبے کو ضرورت کے مطابق گیس ملنے اور اضافی پیداوار کے سسٹم میں شامل ہونے کی تصدیق کے اگلے روز گیس کی لوڈشیڈنگ کی خبریں کوئی اور کہانی سنا رہی ہیں۔ اس امر کا امکان شاید ہی ہو کہ وزیراعلیٰ سے غلط بیانی کی گئی ہو بہرحال ارضی حقیقت یہ ہے کہ گیس کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کو گزشتہ روز کے ایس این جی پی ایل کے جنرل منجیر کی یقین دہانی کے اگلے روز سامنے آنے والی اس شکایت پر ان سے جواب طلب کرنا چاہئے تاکہ مزید علاقوں سے اس طرح کی شکایات سامنے آنے کی صورت میں ندامت کی نوبت نہ آئے۔ وزیراعلیٰ اس مسئلے کا نوٹس لیں تو ایس این جی پی ایل کے حکام دیگر علاقوں میں بھی سامنے آنے والی شکایات کو بروقت رفع کرنے کی کوشش کریں گے وگرنہ ایس این جی پی ایل اور پیسکو میں عوامی شکایات پر کان دھرنے اور اس کا ازالہ کرنے کی روایت ہے ہی نہیں۔ یہ وزیراعلیٰ کے بھی وقار کا سوال ہے کہ ان کو ہونے والی یقین دہانی کے اگلے ہی دن بھرم کھل جاتا ہے۔
چیف سیکرٹری نوٹس لیں
محکمہ خزانہ میں انٹرویو دینے والے اُمیدواروں کا ڈیڑھ سال انتظار کے باوجود تقرری کا منتظر ہونا سست روی اور غفلت کی انتہا ہے۔ جولائی 2019 میں مکمل ہونے والے انٹرویو کے اُمیدواروں کی دسمبر 2020 میں بھی عدم تقرری حیرت انگیز امر ہے۔ چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا جتنا جلد اس مسئلہ کا نوٹس لیں اور خالصتاً میرٹ کے مطابق امیدواروں کی تقرری یقینی بنائیں تو بہتر ہوگا۔

مزید پڑھیں:  خلاف روایت عمل