احسان پر نازاں نوجوان کی آنکھیں کھل گئیں

وہ انتہائی نیک اور صالح بیٹا تھا۔ باپ کے ساتھ حسن سلوک میں اپنی مثال آپ تھا۔ وہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکا تھا۔ اللہ کی رضا و خوشنودی کا حصول اس کا مشن تھا۔ وہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکا تھا ۔ والدین کے ساتھ اس کے حسنِ سلوک کی لوگ مثال دیا کرتے تھے۔

ایک دفعہ کی بات ہے کہ والد کے ساتھ اپنی نیکی اور حسن سلوک کی بناء پر وہ خود پسندی کا شکار ہو گیا۔ وہ اپنے احسان پر بڑا نازاں تھا ۔ والد کے ساتھ حسنِ سلوک سے اسے کچھ زیادہ ہی خوش فہمی ہو چکی تھی، چنانچہ اس نے ایک روز والد سے عرض کیا:
’’ابوجان! میں چاہتا ہوں کہ آپ نے میرے ساتھ بچپن میں جو احسان یا میری بھلائی کے لیے جو کچھ بھی کیا ہے ، اس کا بدلہ نیکی و بھلائی سے دوں۔ اللہ کی قسم! آپ مجھے مشکل سے مشکل کام کا بھی حکم فرمائیں گے تو میں اسے آسانی سے انجام دوں گا۔ آپ کا فرمان چاہے کتنا ہی کٹھن ہو ، میں اسے آسان ہی نہیں پرلطف بھی بنا لوں گا۔ ‘‘

والد باشعور اور تجربہ کار انسان تھا۔ اس نے بیٹے کی باتوں کو دھیان سے سنا مگر کوئی ایسی بات نہیں کہی جس سے اس کے جذبات کے آبگینے کو ٹھیس لگے۔ یا اس کے احساسات کی ناقدری ہو۔ اس نے بیٹے سے کہا:
’’مجھے زندگی میں کسی چیز کی خواہش نہیں رہی، البتہ چند سیب ضرور کھانا چاہتا ہوں۔ ‘‘

بیٹے کیلئے اس خواہش کی تکمیل بہت آسان تھی۔ اُس نے آناً فاناً بہت سارے سیب باپ کی خدمت میں پیش کر دیے اور عرض کیا: آپ جتنے سیب چاہیں کھائیں اور جتنا چاہیں رکھیں، جب آپ سیب کھا کر فارغ ہو جائیں گے تو میں اور سیب لا دوں گا کیونکہ میں ہر وہ کام انجام دینے کی طاقت رکھتا ہوں جس کا آپ مطالبہ فرمائیں گے۔

والد بیٹے کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا:
’’اس برتن میں جتنے سیب ہیں، وہ میرے لیے کافی ہیں۔ مجھے مزید سیبوں کی ضرورت نہیں۔ مگر میں سیب یہاں نہیں کھانا چاہتا میں سامنے پہاڑ کی چوٹی پر جانا چاہتا ہوں۔ وہیں یہ سیب کھائوں گا، لہٰذا میرے بیٹے! اگر تم واقعی میرے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہتے ہو تو مجھے اُس چوٹی پر لے چلو۔ ‘‘

بیٹے نے باپ کی باتیں سنیں اور اُسے راضی کرنے کی غرض سے حکم کی تعمیل میں جلدی کی۔ اُس نے سیبوں کی ٹوکری ہاتھ میں تھامی ، باپ کو کندھے پر بٹھایا اور پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گیا۔ وہاں باپ کو ایک مناسب جگہ بٹھا کر سامنے سیب رکھ دیے اور عرض کیا: والد محترم! اب آپ سیب کھائیے ، مجھے آپ کے حکم کی تعمیل کر کے بہت خوشی ہو رہی ہے۔
اب والد ٹوکری سے ایک ایک سیب نکالتا گیا اور چوٹی سے نیچے لڑھکاتا گیا۔ جب ٹوکری کھالی ہو گئی تو باپ نے بیٹے سے کہا: نیچے جائو اور گرے ہوئے سیب اوپر لے آئو۔ بیٹے نے حکم کی تعمیل کی۔ نیچے سے سارے سیب اُٹھا کر پہاڑ کی چوٹی پر لے آیا اور باپ کے سامنے رکھ دیئے۔ والد نے تین دفعہ یہی عمل کیا۔ تینوں دفعہ بیٹے نے باپ کے حکم کے مطابق پہاڑ سے نیچے اُتر کر سیب چُنے ، چوٹی پر پہنچائے اور باپ کے سامنے رکھ دیے۔

چوتھی مرتبہ باپ نے پھر یہی عمل کیا، اب بیٹے کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ وہ باپ کی اس حرکت پر اندر ہی اندر پیچ و تاب کھا رہا تھا، مگر زبان پر حرف شکایت نہیں لایا تھا۔ باپ نے بیٹے کی آنکھوں میں غصے کی چنگاریاں دیکھ لی تھیں، چنانچہ اُس نے شفقت سے بیٹے کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا:
’’جان پدر! ناراض ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہی وہ جگہ ہے جب تم بچپن میںاسی پہاڑ کی چوٹی سے اپنی گیند بار بار نیچے پھینک دیتے تھے اور میں بار بار تیزی سے نیچے بھاگتا تھا اور گیند واپس لا کر تمہارے ننھے منھے ہاتھوں میں تھما دیتا تھا۔ میں تمہاری اس حرکت سے کبھی ملول نہ ہوا۔ نہ مجھے کوئی تھکن محسوس ہوئی، یہ سب کچھ میں تمہیں خوش رکھنے کے لیے کرتا تھا۔ ‘‘

قارئین کرام! اس واقعے کے مطالعے سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ہم اپنے ماں باپ کے ساتھ چاہے کتنا ہی حسنِ سلوک کریں اور انہیں راضی کرنے کے لیے کتنی ہی قربانیاں دیں، ہم اُن کے احسانات کا بدلہ ہرگز نہیں چکا سکتے ۔ آئیے! ہم اپنے والدین کے ساتھ نیکی ، بھلائی اور حسنِ سلوک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، اُن کے لیے دعا و استغفار کریں اور ان کے دنیا سے جانے کے بعد ان کے لیے صدقہ جاریہ بنیں۔