اسحاق ڈار سے عوام کی توقعات

اسحاق ڈار پانچ برس لندن میں خود ساختہ جلاوطنی کاٹنے کے بعد پاکستان واپس آ کر سینیٹ کی رکنیت کا حلف اٹھانے کے بعد چوتھی بار وزارت خزانہ کا عہدہ سنبھال چکے ہیں، ان کی واپسی سے ڈالر کی اونچی اڑان میں کسی قدر کمی آئی ہے جسے اسحاق ڈار نے اپنی آمد اور اہم کامیابی قرار دیا ہے، تاہم اس معمولی کمی پر خوش ہونا سمجھ سے بالاتر ہے، کیونکہ اب بھی ڈالر بلند ترین سطح پر کھڑا ہے اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بے قدری کی وجہ سے حکومت عوام کو ریلیف فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ اسحاق ڈار کی معاشی تجربہ کاری کی دنیا معترف ہے مگر بنیادی سوال یہ ہے کہ جن حالات میں انہوں نے وزارت خزانہ کا عہدہ سنبھالا ہے اس میں معاشی بحران کا خاتمہ کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔ اس وقت پاکستان کو کئی محاذوں پر چیلنجز کا سامنا ہے، مہنگائی، ڈالر کی بڑھتی قدر، سیلاب متاثرین کی بحالی اور آئی ایم ایف کی کڑی شرائط میں عوام کو ریلیف فراہم کرنا قطعی طور پر آسان نہیں ہے۔ بیرونی قرضوں کا بوجھ الگ موضوع ہے جو اسحاق ڈار سے زیادہ تمام سیاسی جماعتوں کیلئے غور طلب مسئلہ ہے۔
اسحاق ڈار سے عوام نے بہت امیدیں وابسطہ کر رکھی ہیں ایسے حالات میں انہیں غیر معمولی طور پر ایکٹو ہونا پڑے گا، تاہم دکھائی یہ دیتا ہے کہ وہ روایتی انداز میں معاملات کو آگے لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں انہوں نے منی بجٹ کا عندیہ دیا ہے اس منی بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے کا پروگرام اولین ترجیح ہونی چاہئے، اگر وہ الفاظ کی جادو گری سے سمجھتے ہیں کہ کام چل جائے گا تو عوام اسے کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔ یہ درست ہے کہ موجودہ حالات میں عوام کو ریلیف دینا اتحادی حکومت کی ساکھ کا مسئلہ بھی بن چکا ہے تاہم تحریک انصاف کی سابق حکومت کی طرح موجودہ اتحادی حکومت بھی کارکرکرگی کی بجائے اپوزیشن کی کمزوری پر حکومت کر رہی ہے کیا اس سے عوام کو کوئی فائدہ ہونے والا ہے؟ ہرگز نہیں۔ یہ پریکٹس پہلے بھی ہو چکی ہے اور عوام اسے مسترد کر چکے ہیں۔
حکومت میں آنے کے بعد سیاسی جماعتوں کی ترجیحات کیسے بدل جاتی ہیں اس کا اندازہ اسلام آباد میں گزشتہ پانچ روز سے جاری کسان اتحاد کے دھرنے سے لگایا جا سکتا ہے، پورے پاکستان سے ہزاروں کسان اپنے مطالبات کے حق میں سراپا احتجاج ہیں مگر حکومت ان کے ساتھ بات کرنے یا ان کے مطالبات تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہے، کسانوں کے بنیادی مطالبات یہ ہیں کہ زرعی ٹیوب ویل کے بجلی بلوں میں جو اضافی ٹیکس عائد کئے گئے ہیں وہ ختم کئے جائیں۔ ڈے اے پی کھاد کی نایابی اور مہنگے داموں فروخت کو سستا کر کے اس کی دستیابی آسان بنائی جائے اس کے علاوہ ان کا کوئی بڑا مطالبہ نہیں ہے، اس کے بدلے وہ گندم سستی کرنے کیلئے آمادہ ہیں، صاف ظاہر ہے پیداوای لاگت بڑھنے سے گندم اور دیگر اجناس بھی مہنگی ہو جاتی ہیں، مگر حیران کن بات یہ ہے کہ کسان اتحاد سے ابھی تک وزارت خزانہ نے بات کرنا گوارہ نہیں سمجھا ہے، وزارت داخلہ کو مذاکرات کیلئے کہا گیا ہے، جس سے معاملات سدھرنے کی بجائے الٹا خراب ہو گئے ہیں، اس ضمن میں دیکھا جائے تو کسان اتحاد کا مؤقف درست معلوم ہوتا ہے، کیونکہ اس سے چند روز قبل بھی کسان اتحاد نے اسلام آباد میں احتجاج کیا تھا، اس وقت وزیراعظم شہباز شریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کیلئے امریکہ کے دورہ پر تھے، وزارت داخلہ کے حکام نے کسان اتحاد کی وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ ویڈیو لنک پر بات کرائی، کسان اتحاد نے اپنے مطالبات وزیراعظم کے سامنے رکھے، طے یہ ہوا کہ وزیراعظم امریکہ کے دورہ سے واپس آنے کے بعد 28 ستمبر کو کسانوں کے مطالبات پر مشاورت کر کے اسے پورا کرنے کی کوشش کریں گے، مگر ایسا نہیں ہوا، وعدہ ایفا نہ ہونے کی صورت میں کسان اتحاد نے اسلام آباد میں دھرنا دے دیا، اب صورتحال یہ ہے کہ حکومت ڈی چوک سے چند فرلانگ پر بیٹھے کسانوں کے ساتھ بات چیت کرنے کیلئے تیار نہیں ہے، ان کے پرامن احتجاج کو خاطر میں نہیں لایا گیا، تو مجبور ہو کر وہ ڈی چوک کا رخ کریں گے جس کے نتیجے میں سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ تصادم متوقع ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ بڑی بدقسمتی ہو گی کیونکہ کسانوں کے مطالبات بجا ہیں، دوسری بات یہ ہے کہ کسانوں کے مسائل حل کرنے سے ہماری زراعت مضبوط ہو گی جو ملک کی معاشی بحالی میں معاون ثابت ہو سکتی ہے بالخصوص ایسے حالات میں جب حکومت درآمدات پر پابندی لگا رہی ہے اگر ملکی سطح پر پیداوار کو مراعات نہ دی گئیں تو پھر دہرا نقصان ہو گا، گندم کی کم پیداوار کی صورت میں حکومت کثیر زرمبادلہ خرچ کر کے مہنگے داموں باہر سے گندم خریدنے پر مجبور ہوتی ہے مگر اپنے کسانوں کو سبسڈی دینے کیلئے تیار نہیں ہے۔ کسانوں کے ساتھ وزیر خزانہ کی بے مروتی اس بات کی علامت ہے کہ وہ عوام کا دل جیت کر کارکرگی پیش کرنے کی بجائے اپنی قابلیت کے زعم میں متبلا ہیں، وہ پاکستان کے موجودہ حالات کو سابق ادوار پر قیاس کرنے کی کوشش کر رہے ہیں حالانکہ اب حالات بدل چکے ہیں اگر انہوں نے عوام کے زخموں پر مرہم نہ رکھا تو نوشتہ دیوار پڑھ لیں کہ سابق تین ادوار میں کامیاب وزیر خزانہ اپنے چوتھے دور میں ناکام ہو گیا، اگر ایسا ہوتا ہے تو اسحاق ڈار اپنی ناکامی کے ذمہ دار خود ہوں گے۔

مزید پڑھیں:  متاثرین تربیلہ ڈیم اورجنرل ایوب فیملی