1 562

ترک صدر کا طرز عمل

طیب اردوان کو آخر کار فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اس استعمار کا ایندھن بنیں گے جو اپنے ڈھب کی دنیا تشکیل دینا چاہتا ہے اور مسلمانوں میں کشتوں کے پشتے لگا رہا ہے یا پھر وہ تاریخ میں لکیر کی دوسری طرف کھڑے ہوں گے۔ جہاں پورے قد سے سلطان عبدالحمید کھڑے تھے۔ جنہوں نے صیہونیوں کے آگے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ مغرب کی چکاچوندی سے متاثر ہوئے ، پھر اعصابی اختلال کا شکار ہوکر تاریخ میں رسوا ہوئے۔ یہ تو آشکار ہے کہ امریکی افواج کے انخلاء کے بعد ترکی کو کابل ہوائی میدان کی ذمہ داری خوامخواہ نہیں سونپ دی گئی۔ رجب طیب اردوان کا امیج اسلامی دنیا میں ایک مسلم دوست رہنما کی ہے۔ اگلے تین چار برسوں کے بعد نئی دنیا کے تشکیل کی آہٹ وہ سن رہے ہیں۔ ان سے مسلم امہ کی نگہ داری کی امید کی جاتی ہے۔ مگر ان کے دل کے کسی کونے میںمغرب کی مچلتی دنیا بھی ہے۔ وہ گاہے ترکی کے مستقبل کو یورپ کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں۔ زیادہ دن نہیں گزرے ترکی یورپی یونین کا حصہ بننے کے لیے اسی طرح بے تاب تھا، جس طرح پاکستان فیٹیف (ایف اے ٹی ایف) کی مشتبہ فہرست (گرے لسٹ) سے نکلنے کے لیے مشکلات کا شکار ہے۔
مسلم ممالک کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کا اپنا کوئی ”ورلڈ ویو” نہیں۔ وہ عالمی دنیا میں شراکت دار ہونے کے بجائے فداکار کے طور پر خود کو پیش کرتے ہیں۔ دو مختلف نظریات کا ایک مشترک عالم نہیں ہوسکتا۔ اسلام اور مغرب دو متحارب نظریات ہیں۔ ان کی دنیائیں الگ الگ ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ مسلم دنیا مسلسل مغرب کی بنائی دنیا کے آگے ڈھیر ہے۔ اس ذلت ونکبت کی تمام تر ذمہ داری گزشتہ سو برسوں سے مسلم دنیا پر مسلط برائے نام مسلمان رہنماؤں پر عائد ہوتی ہے۔ یہ رہنما نام مسلمانوں کے رکھتے ہیں، مگر ان کے مفادات ، طرزِ زندگی کے تمام لوازمات اور اثاثہ جات مغربی ممالک میں ہیں۔ یہ مکمل کھوکھلے ہیں۔
رجب طیب اردوان اس فہرست کے تمام رہنماؤں سے مختلف دکھائی دیتے ہیں۔ پھر وہ ایک ایسی قوم کے رہنما ہیں، جو آج بھی اپنی تاریخ سے منسلک ہے۔ اگرچہ ہر قوم کی طرح ترکی کو بھی اپنے شاندار ماضی سے کاٹنے کی پوری کوشش کی گئی۔قومیت کی جیسی خطرناک تحریک ترکی میں چلی کہیںنہیں۔دوسری جانب طالبان نے واضح کردیا ہے کہ ترکی اپنی فوجیں افغانستان سے نکال لے۔ترکی کے پاس جو بھی توجیہات ہوں مگر کابل کے ہوائی میدان کو تزوایراتی اہمیت حاصل ہے۔ طالبان کی پیش قدمی کی صورت میں غداروں کے لیے یہ راہ فرار ہے۔ یہاں مزاحمت کے امکانات بہر صورت رہیں گے۔ اور یوں طالبان ترکی کے مدمقابل ہوں گے۔ یاد رہنا چاہئے کہ ترکی کے 500 فوجی افغانستان میں 2001 ء سے موجود ہیں۔ طالبان نے کبھی بھی انہیں نشانہ نہیں بنایا۔ ترکی کو سمجھنا چاہئے کہ طالبان ان سے کیوں گریزاں ہیں۔ ترکی رواں برس اپریل میں جب طالبان کے ساتھ مذاکرات اور امن کانفرنس کی میزبانی کرنا چاہتا تھا، تو طالبان نے اس پیشکش کو قبول نہیں کیا تھا۔ دراصل ترکی نیٹو کا رکن ملک ہے۔اور طالبان اپنے خلاف جنگ میں نیٹو کو ایک فریق کے طور پر دیکھتا ہے۔ پھر اس کا حصہ خواہ کوئی بھی ملک ہو۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ترکی نے 2001 ء سے اب تک افغانستا ن میں اپنا کردار غیر جنگی رکھا ہے یا نہیں۔ فرق اس سے پڑتا ہے کہ کابل کے ہوائی میدان میں اس کا کردار نیٹو کے ایک رکن ملک کے طو ر پر ہوگا اور نیٹو افغانستان میں ایک جارح قوت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یوں جنگ باقی رہے گی۔
ترکی نیٹو کا اتحادی ہے، اس کی یہ حیثیت افغان سرزمین پر کسی طور تبدیل نہیں ہوتی۔ اسے یہ ”خوش فہمی” نہیں ہونی چاہئے کہ یہاں اسے اب ایک مسلمان ملک کے طور پر دیکھا جائے گا۔ترکی شام اور آذربائیجان میں ایک کردار رکھتا ہے۔ اس نوع کی سرگرمیاں برتری کا ایک احساس دیتی ہے۔ افغانستان میں اس کی گنجائش نہیں۔ ترکی کے افغانستان میں کردار جاری رکھنے کے عزم کا سب سے بھیانک اور سنگین پہلو یہ ہے کہ وہ ایسا طالبان کو اعتماد میں لے کر نہیں کر رہا بلکہ وہ یہ سب نیٹو اور امریکا کی حمایت سے کر رہا ہے۔ ایسی صورت میں طالبان کے لیے یہ کردار ہمیشہ مشکوک رہے گا۔ کیا یہ بدقسمتی نہیں کہ ترکی کے افغانستان میں کردار کی ضرورت پر زور پاکستان، طالبان یا خطے کے کوئی دوسرے ملک نہیں بلکہ برسلز میں نیٹو کے سیکریٹری جنرل ڑینس اشٹولٹنبرگ دے رہے ہیں۔ وہ کیا چیز ہے جو نیٹو کے سیکریٹری جنرل کے لیے افغانستان میں ترکی کے کردار کو ”کلیدی” بناتی ہے، بس وہی چیز طالبان کو ان سے مشکوک کرتی ہے۔ نیٹو جب اس کردار کا خیر مقدم کرے گا تو طالبان اس کی مذمت کریں گے۔ یہ سادہ بات اگر انقرہ نہیں سمجھ رہا تو وہ افغانستان میں حال ہی نہیں مستقبل بھی کھو دے گا۔

مزید پڑھیں:  شفافیت کی طرف ناکافی قدم